گاڑیاں‘ہوائی جہاز‘بحری جہاز ‘ایئرکینڈشنرسمیت ہر وہ چیزجو کسی بھی توانائی سے چلتی ہے وہ فضاءمیں حدت کے اضافے کا سبب بنتی ہے‘دنیا کے امراءاور بڑی معیشتوں کو اب کرہ ارض کو بچانے کے لیے خرچ کرنا ہوگا حکومتوں‘تیل پیدا کرنے والا ممالک‘بڑے کارخانوں‘کارسازکمپنیوں‘فضائی کمپنیوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی اور اپنے منافع کے علاوہ انسانیت کی بقاءکے بارے میں بھی سوچنا ہوگا.اقوام متحدہ کی ماحولیات پر ایجنسی کے ایگزیکوٹیو سیکرٹری سائمن اسٹیل کی رپورٹ
جنیوا ( انٹرنیشنل ڈیسک ) اقوام متحدہ کی ماحولیات پر ایجنسی کے ایگزیکوٹیو سیکرٹری سائمن اسٹیل نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لیے انسانوں کے پاس صرف دو سال باقی ہیں یہ انتباہ ایک ڈرامائی بیان لگتا ہے لیکن جلد اقدامات بہت ضروری ہیں انہوں نے کہ یہ سوال کہ دنیا کو بچانے کے لیے دو سال اصل میں کس کے پاس ہیں؟ تو اس کا جواب اس کرہ ارض کا ہر فرد ہے انہوں نے ترقی یافتہ ممالک سے گرمی میں اضافہ کرنے والے اخراج کو روکنے کے لیے جلد موثر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے.
اس موضوع سے متعلق ایک تحقیقی مقالے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اب زیادہ سے زیادہ لوگ معاشرتی اور سیاسی سطح دونوں میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کارروائی دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگیوں اور اپنے گھریلو اخراجات میں تک موسمیاتی بحران کے اثرات کو محسوس کر رہے ہیں. انہوں نے کہا کہ دنیا کے امراءاور بڑی معیشتوں کو اب کرہ ارض کو بچانے کے لیے خرچ کرنا ہوگا حکومتوں‘تیل پیدا کرنے والا ممالک‘بڑے کارخانوں‘کارسازکمپنیوں‘فضائی کمپنیوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی اور اپنے منافع کے علاوہ انسانیت کی بقاءکے بارے میں بھی سوچنا ہوگا.
اس قبل ایسی ہی واررنگ بالخصوص جی 20 ممالک کے لیے تھی جن میں امریکہ، چین اور بھارت جیسے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک شامل ہیں یہ ممالک زمین پر 80 فیصد گرمی پیدا کرنے والے اخراج کے ذمہ دار ہیں جبکہ دنیا میں گاڑیوں کے اندھادھند استعمال کو بھی عالمی حدت میں اضافے کے ذمہ دار عناصر کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے.
ماہرین کا کہنا ہے گاڑیاں‘ہوائی جہاز‘بحری جہاز یہاں تک کہ گھر میں استعمال ہونے والے ایئرکینڈشنرسمیت ہر وہ چیزجو کسی بھی توانائی سے چلتی ہے وہ فضاءمیں حدت کے اضافے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوتی ہے دنیا میں اربنائزیشن کے رجحان جنگلات کے خاتمے اور درختوں کی بے دریغ کٹائی فضائی امور سے متعلق مسائل میں اضافے کا موجب بنی ہے‘شہری آبادیوں میں اضافہ حکومتوں اور مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کے ذریعے مزید کمائی کا ذریعہ بنے ہیں مگر کرہ ارض اور انسانوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑرہی ہے.
واضح رہے کہ دنیا کو کاربن آلودگی پر قابو پانے کے لیے نئے اور مضبوط منصوبوں کے لیے 2025 کی ڈیڈ لائن مقررکی گئی تھی رواں ماہ کے آخر میں واشنگٹن میں اہم عالمی مالیاتی اجلاس منعقد ہوں گے سائمن اسٹیل کا کہنا ہے کہ دنیا کی معاشی ”دیوتاﺅں“کو ماحولیات کے بارے میں بھی سوچنا ہوگااور اسے اپنے ترجیجی ایجنڈے میں شامل کرنا ہوگا کیونکہ ہمیں اگلے دو سالوں میں ضروری اقدامات اٹھانا ہیں ہمارے پاس وقت بہت کم ہے کیونکہ زمین کے ساتھ سمندروں کے درجہ حرارت میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے.
انہوں نے متنبہ کیا کہ بروقت اقدامات نہ کرنے سے ہمارے سیارے کوناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا چونکہ دنیا بھر میں لوگوں کو ریکارڈ درجہ حرارت اور قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس سے جانی نقصان کے علاوہ اربوں ڈالر کا مالی نقصان بھی ہوتا ہے جو عام لوگوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ درجہ حرارت میں اضافے کے ذمہ دار ملک‘کارپوریشنز‘کمپنیاں اور سرمایہ خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں بلکہ انہیں اس سے فائدہ پہنچتا ہے.
دوسری جانب ایک نئی تحقیق کے مطابق، دنیا کے کچھ زمینی ذرائع میںختم نہ ہونے والے کیمیکلز”فلوروپولیمر گروپ “(پی ایف اے ایس)کی سطح محفوظ حدوں سے تجاوز کر گئی ہے محققین نے 20 سال کے عرصے میں دنیا کے مختلف خطوں سے 45ہزار ڈیٹا پوائنٹس کا تجزیہ کیا”نیچر جیو سائنس “ جریدے میں شائع ہونے والی اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق میںبتایا ہے کہ (پی ایف اے ایس)کی سطح غیرمعمولی طور پر بلند پائی گئی ہے امریکی اور کینیڈین ہیلتھ ایجنسیوں کی جانب سے جمع شدہ پانی کے منبع جات کے نمونوں میںخطرناک کیمیکلز کی سطح تجویزکردہ حد سے بہت زیادہ پائی گئی یہ کیمیکلز عام طور پر صنعت میں استعمال ہوتے ہیں اور گھریلو مصنوعات میں بھی پائے جاتے ہیں جن میں نان اسٹک فرائنگ پین، کاسمیٹکس، کیڑے مار ادویات اور کھانے کی پیکیجنگ وغیرہ مگر اس کی حد مقررکی جاتی ہے کیونکہ ایک بار یہ انسانی جسم میں جانے کے بعد یہ ختم نہیں ہوتے اس لیے انہیں کبھی نہ ختم ہونے والے کیمیکل کہا جاتا ہے .
تحقیق کے مطابق ٹھوس شواہد ملے ہیںکہ PFAS کیمیکلز ماحولیاتی نقصان اور کینسر جیسے امراض کا باعث بن رہے ہیں نیوساﺅتھ ویلزیونیورسٹی کے پروفیسراور محقق ڈینس او کیرول کا کہنا ہے کہ ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ” پی ایف اے ایس“ ماحول میں اپنی مقررہ حد سے زیادہ پھیل رہے ہیں لیکن میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ ان کا سب سے بڑا ماخذ دنیا میں پینے کے پانی کا بہت بڑا حصہ ہے انہوں نے کہا کہ ان کی مقدار کسی صورت پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے مگر مختلف خطوں کے نمونوں میں یہ50فیصد سے بھی زیادہ ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے اسی طرح ایک اور تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پانی سمیت دنیا کے دیگر زمینی ذرائع میں PFAS کی سطح محفوظ حدوں سے تجاوز کر گئی ہے.