فوجی کنٹریکٹر کمپنی” سی اے سی آئی“ پر قیدیوں پر تشدد کرنے‘بجلی کے جھٹکے دینے‘غیرانسانی سلوک کرنے کے الزامات ہیں‘امریکی فوج اپنے گناہ کمپنی کے ذمہ ڈال رہی ہے کنٹریکٹر کے ملازمین فوجیوں کو احکامات دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے. امریکی فوج کے لیے کام کرنے والی فوجی کنٹریکٹر کمپنی” سی اے سی آئی“ کا دعوی
واشنگٹن( انٹرنیشنل ڈیسک ) امریکی عدالت میں عراق کی ابو غریب جیل میں زندہ بچ جانے والے تین قیدیوں کا مقدمہ20سال بعد فوجی کنٹریکٹر کے خلاف سنا جائے گا جسے قیدیوں نے اپنے ساتھ بدسلوکی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے مقدمے کی سماعت ریاست ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا کی عدالت میں پیر کو شروع ہو گی. یہ کیس 2008 سے عدالتوں میں ہے لیکن امریکی فوج کے لیے کام کرنے والی فوجی کنٹریکٹر کمپنی” سی اے سی آئی“ نے اسے عدالت سے باہر رکھنے کے لیے تقریباً 20 بار کوشش کی ہے 2021 میں امریکی سپریم کورٹ نے سی اے سی آئی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے مقدمے کو چلانے کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ کو بھیج دیا تھا.
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق مدعیان کی نمائندگی کرنے والے مرکز برائے آئینی حقوق کے وکیل بحر اعظمی کے مطابق یہ پہلا موقع ہو گا کہ ابو غریب کے زندہ بچ جانے والے اپنے تشدد کے دعوے امریکی جیوری کے سامنے پیش کر سکیں گے اس سول مقدمے میں مدعا علیہ کنٹریکٹر کمپنی ”سی اے سی آئی“ نے کسی بھی غلط کام سے انکار کیا ہے اور 16 سال کی قانونی چارہ جوئی کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کے ملازمین پر الزام نہیں ہے کہ انہوں نے کیس میں کسی بھی مدعی کے ساتھ بدسلوکی کی ہے.
دوسری طرف مدعی اس کنڑیکٹر کو ان حالات کے پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں تشدد برداشت کرنا پڑا وہ اس سلسلے میں حکومتی تحقیقات میں ثبوت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سی اے سی آئی کے کنٹریکٹرز نے فوجی پولیس کو حراست میں لیے گئے افراد سے پوچھ گچھ کے لیے انہیں کمزور کرنے کی ہدایت کی. امریکی فوج کے ریٹائرڈ جنرل انتونیو تگوبا جنہوں نے ابو غریب اسکینڈل کی تحقیقات کی سربرای کی تھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی گواہی متوقع ہے جنرل انتونیو تگوبا کی انکوائری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سی اے سی ائی کنٹریکٹر کمپنی کے کم از کم ایک تفتیش کار کو جوابدہ ہونا چاہیے جس نے ملٹری پولیس کو ایسی شرائط طے کرنے کی ہدایت کی ہو جو جسمانی زیادتی کے مترادف ہوں.
اے پی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس بات پر بہت کم اختلاف ہے کہ ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ زیادتیاں خوف ناک تھی سال 2004 میں جاری ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ برہنہ قیدیوں کا اہرام بنایا جارہا ہے یا انہیں پٹیوں سے گھسیٹا جا رہا ہے کچھ تصاویر میں ایک سپاہی مسکراتے ہوئے انگوٹھے سے اس واقع کی تعریف کر رہا ہے جب کہ وہ لاش کے پاس پوز دے رہا ہے.
تصاویر میں قیدیوں کو کتوں سے ڈراتے ہوئے اور سر ڈھانپے ہوئے بجلی کے تاروں سے جڑا دکھایا گیا ان بدنام زمانہ تصویروں میں مدعیوں کی واضح طور پر شناخت نہیں کی جا سکتی لیکن ان کے ساتھ بدسلوکی کی صورتیں پریشان کن ہیں. ایک قیدی سہیل الشماری نے جیل میں اپنے دو ماہ کے دوران ہونے والے جنسی حملوں اور مار پیٹ کے واقعات بیان کیے ہیں اسے بجلی کا جھٹکا بھی لگا اور گلے میں رسی باندھ کر جیل میں گھسیٹا بھی گیاقطری نشریاتی ادارے ”الجزیرہ“ کے سابق رپورٹر صلاح العجائیلی نے کہا کہ وہ جیل میں ذہنی تناﺅ کا شکار تھے جس کی وجہ سے انہوں نے خون کی قے کی انہوں نے بتایاکہ انہیں نیند سے بھی محروم رکھا گیا ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے لیے انہیں عورتوں کے کپڑے پہننے پر مجبور کیا جاتا رہا اور کتوں سے ڈرایا گیا.
کنٹریکٹر کمپنی سی اے سی آئی نے کہا ہے کہ امریکی فوج وہ ادارہ ہے جسے ابو غریب کے حالات پیدا کرنے کا ذمہ دار ہونا چاہیے اور یہ کہ اس کے ملازمین فوجیوں کو احکامات دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے کنٹریکٹر کمپنی کے وکلاءنے دعویٰ کیا ہے کہ پورا معاملہ گروپ پر ذمہ داری عائد کرنے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہے کیوں کہ اس کے اہلکاروں نے جنگ کے علاقے کی جیل میں ایسی سرگرمی کے ماحول کے ساتھ کام کیا جس سے کچھ غلط کام لگتا ہے.