اسلامی ملکوں کے درمیان بھائی چارہ کے فروغ کے لیے مکہ میں کانفرنس کا انعقاد

مکہ مکرمہ(این این آئی)اختلافات کو ختم کرنے اور مکالمے کے تصورات کو مستحکم کرنے کی سعودی خواہش کے فریم ورک کے اندر مکہ مکرمہ میں المسجد الحرام کے قریب رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام اسلامی مسالک کے درمیان رابطہ کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے تمام مسالک اور مکاتب فکر کی نمائندہ شخصیات نے شرکت کی اور کلمہ پر اتحاد کے عزم کا اظہار کیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق رابطہ عالم اسلامی کے بیان کے مطابق یہ کانفرنس “امت مسلمہ کے اہم مسائل میں فرقہ وارانہ تقسیم کا خاتمہ کرتی ہے” کانفرنس کے شرکا نے اسلامی فرقوں کے درمیان مشترکہ اہداف کی تکمیل کے لیے مفاہمت اور تعاون کو بڑھانے کے ارادے کا اظہار کیا۔

خاص طور پر فرقہ ورانہ انتہا پسندی پر مبنی خطابات اور نعروں کے مقابلے کی خواہش کا اظہار کیا۔محققین نے عرب ٹی وی کو اسلامی فرقوں کے درمیان رابطے، بھائی چارہ اور تعاون پیدا کرنے، چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور فرقوں کے فرق کو ختم کرنے کے لیے روشن علامات کی اہمیت پر زور دیا۔ایک سعودی صحافی اور محقق حسن المصطفی نے کہا یہ کانفرنس ثقافتی تنوع اور فرقہ وارانہ تنوع کے احترام کی اہمیت کے متعلق بیداری پیدا کرنے کے وسیع منصوبے کی ایک کڑی ہے۔ یہاں فقہی یا نظریاتی اختلافات کو عام معاملات سمجھا جاتا ہے۔ یہ اختلافات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اس حوالے سے ایک دوسرے کے موقف کا احترام کرنے کی بات کی گئی۔ اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز تقاریر کے دائرے سے باہر آنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ فرقہ واریت ایک حقیقی خطرہ ہے جو شہری امن کے لیے خطرہ ہے اور مذہب کو مسلح بنیاد پرستوں کے ہاتھ میں ایک آلہ بنا دیتا ہے جس کے ذریعے وہ ظلم و جبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اس فورم نے دانشمندوں کے ساتھ شامل ہونے اور امن پر یقین رکھنے والے روحانی رہنماں کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔مصنف حسن المصطفی کا کہنا تھا کہ کانفرنس کی سعودی سپانسرشپ اس ذمہ داری کا حصہ ہے جو مملکت اسلامی دنیا کی ایک مرکزی ریاست کے طور پر محسوس کرتی ہے۔ یہ سپانسرشپ اسلام کی اس قدر کو برقرار رکھنے کی تصدیق کرتی ہے کہ اسلام رحمت کا مذہب ہے جو متحد کرتا اور تقسیم نہیں کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو جنونیت اور فرقہ پرستی سے دور ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مختلف فرقوں اور متعدد ممالک کے مذہبی سکالرز اور روحانی پیشواوں کی وسیع پیمانے پر شرکت اور ان کے درمیان بے تکلفانہ اور معروضی گفتگو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک اشرافیہ مثبت تبدیلی کی اہلیت رکھتی ہے۔

مذہبی گفتگو کے عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کام اکیلے کسی ایک فریق کے سپرد نہیں ہے بلکہ مختلف مذہبی رہنماں کو اس کو آگے بڑھانا چاہیے۔ یہ روشن خیالی کے سپانسر کے طور پر عرب اور اسلامی ملکوں کی حکومتوں کی ذمہ داری کا بھی ایک حصہ ہے ۔حسن المصطفنے کہا کہ پل کی تعمیرکے تحت فرقوں کو الگ تھلگ، دشمن جزیروں یا ایسی باڑ سے گھیرا نہیں جاتا جہاں انہیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنے سے روکا جائے۔ یہ کانفرنس انضمام اور اعلی قومی شناخت کے فروغ کا باعث بن رہی ہے۔ یہ جدید ریاست کے تحت ایک بڑا انکیوبیٹر ہے جو قانون کی حکمرانی پر مبنی ہے جو شہریوں کی تمام روحانی اور عقیدہ کی سرگرمیوں کو منظم کر رہا ہے۔ قومی ریاست ایک ایسا متحد ڈھانچہ ہے جو تمام شہریوں کو مکمل آزادی اور کسی بھی زبردستی یا اشتعال انگیزی سے دور رکھنے کی ضمانت دیتا ہے۔رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل کے دفتر کے مشیر ڈاکٹر احمد جیلان نے کہا سعودی عرب کو لفظ اور صفوں کے اتحاد کے تناظر میں عالمی قیادت حاصل ہے۔

پلوں کی تعمیر کا لفظ مسلمانوں کو متحد کرتا ہے اور فرقوں کے درمیان فرق کو ختم کرنے کی ہماری صلاحیت کا پیغام دنیا کو پہنچا رہا ہے۔موریطانیہ میں اسلامک کلچرل ایسوسی ایشن کے بین الاقوامی تعلقات کے عہدیدار ڈاکٹر احمد النحوی نے کہا اس کانفرنس میں فرقہ وارانہ اختلافات پر امت کو یکجا کرنے اور انتہا پسندی، جنونیت اور کفر کی بیان بازی کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ اہم مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔کانفرنس کے موقع پر رابطہ عالم اسلامی اور اسلامی تعاون تنظیم کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ اس پر رابطہ کی طرف سے سیکرٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد عیسی اور او آئی سی کی طرف سے اس کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہ نے دستخط کیے۔ یہ یادداشت کانفرنس کے نتائج کو نافذ کرنے کے لیے دونوں تنتظیموں میں تعاون کی عکاسی کرتی ہے۔