واشنگٹن : (انٹرنیشنل ویب ڈیسک ) امریکی افواج کی جانب سے عراق اور شام میں تہران سے منسلک درجنوں اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔
عرب میڈیا کے مطابق خبر رساں ایجنسی کا بتانا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے پریس کو بتایا کہ “ہم ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ہیں”۔
انہوں نے مزید کہا کہ 28 جنوری کو شمال مشرقی اردن میں امریکی فوجی اڈے پر حملے کے بعد سے ایران کے ساتھ کسی غیر رسمی یا بالواسطہ “رابطے” نہیں ہیں۔
عراق اور شام میں حملے
جان کربی نے عراق اور شام میں امریکہ کی طرف سے شروع کیے گئے حملوں کی “کامیابی” کا بھی اعلان کیا، انہوں نے کہا کہ اس آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی جنگی طیاروں نے سات مختلف مقامات پر کل 85 اہداف کو نشانہ بنایا۔
جان کربی نے مزید کہا کہ امریکہ نے ایران سے منسلک اہداف کے خلاف جوابی حملے کرنے سے پہلے عراقی حکومت کو آگاہ کیا تھا۔
ایران کے اندر کوئی حملہ نہیں کیا جائے گا
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ امریکہ ایران کے اندر حملے نہیں کرے گا اور اس سے باہر کے اہداف پر توجہ مرکوز رکھے گا۔
میزائلوں اور ڈرونز کے گوداموں پرحملے
گزشتہ شام امریکی فوج نے عراق اور شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس اور اس کے ساتھ منسلک مسلح دھڑوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملوں کے نفاذ کا اعلان کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس نے عراق اور شام میں 85 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا، نشانہ بنائے گئے مراکز میں کمانڈ، کنٹرول اور جاسوسی کے مراکز اور میزائلوں اور ڈرونز کے ذخیرہ کرنے کی جگہیں شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فضائی حملوں میں 125 سے زیادہ گائیڈڈ میزائلوں کا استعمال کیا گیا۔
عراقی خودمختاری کی خلاف ورزی
دوسری جانب عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی کے عسکری ترجمان یحییٰ رسول نے کہا ہے کہ امریکی جوابی حملے عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے اور عراق کی سلامتی اور استحکام کے لیے “سنگین” نتائج کا باعث بنیں گے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ “یہ حملے عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی، عراقی حکومت کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں، یہ حملے ایک ایسا خطرہ ہیں جو عراق اور خطے کو ناپسندیدہ نتائج کی طرف لے جائے گا۔