نیدرلینڈز میں انتخابات، کانٹے کا مقابلہ

اسلام آباد (انٹرنیشنل مانیٹرنگ ڈیسک) اس مرتبہ نیدرلینڈز میں عام انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کے امیدوار سبقت لے سکتے ہیں۔ نیدرلینڈز میں رائے دہندگان اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہےکہ انتہائی دائیں بازو کے امیدوار ان انتخابات میں سبقت لے سکتے ہیں۔

نیدرلینڈز میں ہونے والے ان انتخابات میں پارلیمانی نشستوں کے لیے کانٹے کا مقابلہ جاری ہے جب کہ انتہائی دائیں بازو کے امیدواروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر وہ اس الیکشن میں بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔

انتخابات سے ایک روز قبل سامنے آنے والے ایک عوامی جائزے میں اسلام مخالف رہنما گیرت ویلڈرز کی فریڈم پارٹی کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم مارک رُٹے کی قدامت پسند جماعت فریڈم اینڈ ڈیموکریسی پارٹی پر کچھ برتری حاصل تھی۔

ایمسٹرڈیم کے ایک رہائشی ایری فان دیر نوئٹ نے ووٹ ڈالنے کے بعد خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ”مجھے امید ہے کہ کل جب میں اٹھوں گا تو ہمارے ملک کو وزیراعظم ویلڈرز نہیں ہو گا۔

یہ ایک ڈراؤنا خواب ہو گا۔‘‘
رُٹے نے چوتھی مرتبہ حکومتی اتحاد گرنے پر رواں برس جولائی میں استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ پچھلے تیرہ برسوں سے وزارت اعظمیٰ کے منصب پر فائز تھے۔

عوامی جائزوں کے مطابق ملک کی کوئی بھی جماعت بیس فیصد یا اس سے زائد عوامی مقبولیتحاصل کرتی نظر نہیں آتی جب کہ ان جائزوں میں ویلڈرز اور لیبر رہنا فرانز ٹِمرمانز کی عوامی مقبولیت میں قدرے اضافہ دیکھا گیا ہے، تاہم زیادہ تر ڈچ باشندے اس بابت اب تک شش و پنج میں نظر آتے ہیں کہ وہ کسے ووٹ دیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیدرلینڈز کی سیاسی ریت یہی ہے کہ زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی ضروری نہیں کہ وزارت عظمیٰ بھی حاصل کر سکے کیوں کہ اس ملک میں ووٹ کئی جماعتوں کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں اور ایسے میں واضح پارلیمانی اکثریت کئی جماعتوں کے اتحاد ہی سے ممکن ہوتی ہے۔ روئٹرز کے مطابق ان انتخابات کے نتائج کے بعد بھی کسی حکومت کے قیام میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

ان انتخابات میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ جو موضوع سب سے اہم دیکھا گیا ہے، وہ ملک میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی آمد کا ہے۔ اسی موضوع پر مارک رُٹے کی اتحادی حکومت بھی گری تھی۔ منگل کی شب ایک ٹیلی ویژن مذاکرے میں انتہائی دائیں بازو کے رہنما ویلڈرز نے کہا تھا، ”بہت ہو گیا۔ نیدرلینڈز مزید تارکین وطن برداشت نہیں کر سکتا۔

اب ہمیں اپنے لوگوں کے بارے میں سوچنا ہے۔ سرحدیں بند اور صفر تارکین وطن۔‘‘
اس کے جواب میں رٹے کی سیاسی جانشین اور ترک نژاد ڈچ رہنما دیلان یشیلگوز نے کہا، ”میرا نہیں خیال کہ ویلڈرز تمام ڈچ شہریوں کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ وہ سرحدیں بند کرنا چاہتے ہیں اور ان افراد کو معاشرے سے منفی کرنا چاہتے ہیں، جو ان کے مطابق نیدرلینڈز سے تعلق نہیں رکھتے۔‘‘

واضح رہے کہ یشیلگوز سبکدوش ہونے والے ڈچ وزیراعظم مارک رٹے کی جماعت کی قائد ہیں اور وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہیں۔ اگر وہ وزیراعظم بن جاتی ہیں تو وہ نیدرلینڈز کی پہلی خاتون وزیراعظم ہوں گی۔