قومی بچت اسکیموں کے شرح منافع میں نمایاں کمی کر دی گئی

مختلف بچت اسکیموں پر منافع کی شرحوں میں 0.03فیصد تا 1.22 فیصد کی کمی کا اعلان کردیا گیا

لاہور ( نیوز ڈیسک ) قومی بچت اسکیموں کے شرح منافع میں نمایاں کمی کر دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق ادارہ قومی بچت نے اپنی مختلف بچت اسکیموں پر منافع کی شرحوں میں 0.03فیصد تا 1.22 فیصد کی کمی کا اعلان کردیا۔ سروا اسلامک ٹرم اکاؤنٹ پر شرح منافع 1.22 فیصد کمی سے 16.36 فیصد مقرر کردیا گیا ہے، سروا اسلامک سیونگ اکاؤنٹ پر منافع 1فیصد کی کمی سے 18فیصد کر دی گئی ہے۔
اسی طرح شارٹ ٹرم سیونگ سرٹیفکیٹس پر شرح منافع 0.68فیصد کی کمی سے 17.2 فیصد کردی گئی جبکہ اسپیشل سیونگ سرٹیفکیٹس اور اسپیشل سیونگ اکاؤنٹس پر منافع کی شرح 0.3فیصد کی کمی سے 15.5 فیصد کردی گئی ہے۔ ریگولر انکم سرٹیفکیٹ پر شرح منافع 12 بیسز پوائنٹس کی کمی سے 14.52 فیصد کمی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کی گئی کمی کے بعد قومی بچت اسکیموں کے شرح منافع میں کمی کی گئی ہے۔

) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپریل 2020 کے بعد سب سے زیادہ کمی کرتے ہوئے اہم پالیسی ریٹ کو 200 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کم کرکے 17.5 فیصد کردیا ہے جو کہ افراط زر میں کمی اور تیل کی عالمی قیمتوں کے درمیان ہے۔جمعرات کو اپنے اجلاس میں ایم پی سی نے پالیسی ریٹ کو 200 بی پی ایس کم کرکے 17.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق 13 ستمبر 2024 سے ہوگا۔
بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ہیڈ لائن اور بنیادی افراط زر دونوں میں ہی تیزی سے کمی آئی ہے۔ افراط زر میں کمی کی رفتار کمیٹی کی سابقہ توقعات سے کچھ زیادہ ہے جس کی بنیادی وجہ توانائی کی قیمتوں میں منصوبہ بند اضافے پر عمل درآمد میں تاخیر اور تیل اور خوراک کی عالمی قیمتوں میں سازگار اتار چڑھاؤ ہے۔جون میں 150 بی پی ایس کی کمی اور جولائی کے آخر میں مزید 100 بی پی ایس کی کمی کے بعد اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں یہ مسلسل تیسری کمی ہے۔
اپریل 2020 میں وبائی امراض کے دوران اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 200 بی پی ایس کی کمی کی تھی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بنیادی شرح سود 11 سے کم کرکے 9 فیصد کردیا گیا تھا۔تاہم ایم پی سی نے کہا کہ اب بھی ایک فطری غیر یقینی صورتحال ہے جو محتاط مانیٹری پالیسی کے موقف کی ضرورت کو جواز فراہم کرتی ہے۔کمیٹی کے مطابق اس حوالے سے کمیٹی نے گزشتہ برس کے دوران افراط زر میں مسلسل کمی لانے کیلئے سخت مانیٹری پالیسی کے موقف کی اہمیت پر زور دیا۔
تیل کی قیمتوں میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری سمیت مثبت پیش رفت کا حوالہ دیتے ہوئے ایم پی سی نے اندازہ لگایا کہ حقیقی شرح سود اب بھی کافی حد تک مثبت ہے تاکہ افراط زر کو درمیانی مدت کے ہدف 5 سے 7 فیصد تک لایا جاسکے اور میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے۔بیان کے مطابق یہ درمیانی مدت میں پائیدار اقتصادی ترقی کے حصول کے لئے ضروری ہوگا۔
ایم پی سی نے مشاہدہ کیا کہ افراط زر کے دباؤ میں مسلسل کمی اور پالیسی ریٹ میں حالیہ کمی کے اثرات صنعت اور خدمات کے شعبوں میں ترقی کے امکانات کیلئے بہتر ثابت ہوں گے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر جی ڈی پی کی حقیقی شرح نمو مالی سال 25 کے لیے ایم پی سی کے 2.5 سے 3.5 فیصد کے تخمینے کے مطابق ہے۔ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ خام تیل کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی اور عالمی مالیاتی حالات میں نسبتا نرمی کے درمیان عالمی میکرو اکنامک ماحول سازگار ہوگیا ہے۔
کمیٹی کا کہناہے کہ آئندہ درآمدات کے حجم میں اضافے کی توقع ہے جو موجودہ ملکی معاشی بحالی کے مطابق ہے۔ تاہم ملک کی تجارت کے حالات میں بہتری، بنیادی طور پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے، مالی سال 25 میں مجموعی تجارتی خسارے پر قابو پانے کی توقع ہے۔ایم پی سی نے مشاہدہ کیا کہ ان عوامل کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک سے ترسیلات زر میں اضافے سے توقع ہے کہ مالی سال 25 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0-1 فیصد کی متوقع حد کے اندر رہے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم ہونے والے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت رقوم وصول ہونے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مزید مضبوط کرنے میں مدد ملے گیایم پی سی کے مطابق مالی سال 25 کے دوران اوسط افراط زر کی شرح پہلے کی پیشگوئی کی حد 11.5 ط 13.5 فیصد سے کم ہو سکتی ہے، تاہم یہ تخمینہ ہدف شدہ مالیاتی استحکام کے حصول اور منصوبہ بند بیرونی سرمایہ کاری کے بروقت حصول پر منحصر ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں کمی سے متعلق مارکیٹ کی بڑھتی ہوئی توقعات کی عکاسی کرتا ہے۔اس سے قبل 29 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں اسٹیٹ بینک نے کلیدی پالیسی ریٹ میں 100 بی پی ایس کی کمی کی تھی۔مرکزی بینک کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے گرتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت سخت اصلاحات نافذ کرنے کے بعد گزشتہ دو سالوں میں پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کی رفتار میں کمی آئی ہے۔
تاہم یہ مرحلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ اسلام آباد نے اس سال کے اوائل میں ایک مختصر مدتی پروگرام مکمل کرنے کے بعد واشنگٹن میں قائم قرض دہندہ کے ساتھ ایک بار پھر طویل مدتی بیل آؤٹ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔جولائی میں آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام نے 37 ماہ کی مدت پر مشتمل 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے لیے عملے کی سطح کے معاہدے (ایس ایل ای) پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد جامع استحکام اور ترقی کا فروغ ہے۔مارکیٹ فی الحال ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کا انتظار کر رہی ہے۔ تاہم پاکستان کو آئی ایم ایف کے 18 ستمبر تک ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔