امریکی وفاقی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف” ہش منی“ کیس میں مداخلت کی درخواست مسترد کر دی

سابق صدر کے وکلا سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اس کیس کو کالعدم قراردلوانے کے لیے ریاستی عدالت سے فیڈرل کورٹ میں منتقل کروانے کی کوشش کررہے تھے .رپورٹ

نیویارک ( انٹرنیشنل ڈیسک ) امریکہ کی وفاقی عدالت کے ایک جج نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف چلنے والے ہش منی کیس میں مداخلت کی درخواست مسترد کر دی ہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق سابق صدر کی یہ درخواست ہش منی کیس میں مجرم قرار دیے جانے کے معاملے کو ختم کرنے اور اس جرم میں سزا سنائے جانے کو مزید تاخیر کا شکار بنانے کی ایک اور کوشش قرار دی جا رہی ہے.
امریکہ کے سینئر ڈسٹرکٹ جج ایلون ہیلیرسٹین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا کو اس کاغذی کارروائی کی اجازت نہیں دی جس میں ریاست نیویارک کی مین ہٹن ڈسٹرکٹ کورٹ سے یہ کیس لینے کی درخواست کی جانی تھی وفاقی جج کا کہنا تھا کہ وکلا یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ ریاستی عدالت میں کیس کو روک دیا جائے جہاں مئی میں سابق صدر کو قصور وار قرار دیا گیا تھا وفاقی جج کے حکم کے بعد اب معاملہ ریاست کی عدالت پر چھوڑ دیا گیا ہے جہاں 18 ستمبر کو سابق صدر کو سزا سنائی جائے گی.
ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا کوشش کر رہے تھے کہ وہ اس کیس کو ریاستی عدالت سے فیڈرل کورٹ میں منتقل کر دیں جہاں وہ امریکہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اس کیس کو کالعدم قرار دے کر سزا کو ختم کرنے کی کوشش کر سکتے تھے امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت سابق صدور کو سرکاری امور کے فیصلوں پر استثنیٰ دیا گیا ہے. امریکہ کے ڈسٹرکٹ جج ایلون ہیلیرسٹین نے گزشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں ہش منی کیس کو وفاقی عدالت میں منتقل کرنے کی استدعا کی گئی تھی انہوں نے گزشتہ روز اپنے فیصلے میں امریکی سپریم کورٹ کے سابق صدور کے استثنیٰ سے متعلق فیصلے کا ذکر تو نہیں کیا البتہ یہ کہا ہے کہ ٹرمپ کے معاملے میں ہش منی کیس میں رقوم کی ادائیگیاں ایک نجی اور غیر سرکاری معاملہ ہے جو سرکاری امور کی انجام دہی کی حدود میں نہیں آتا.
ڈسٹرکٹ جج ایلون ہیلیرسٹین نے ٹرمپ کے وکلا کی اس دلیل کو بھی پسِ پشت ڈال دیا ہے کہ سابق صدر کو ریاستی عدالت میں ان کے مقدمے کی سماعت کرنے والے جج جان مرچن سے تعصب، مفادات کے تصادم اور نامناسب رویے کا سامنا رہا ہے‘ڈسٹرکٹ جج ایلون ہیلیرسٹین نے چار صفحات پر مشتمل فیصلہ منگل کو جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی عدالت کا یہ دائرہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ پر نیویارک میں ہونے والے مقدمے پر دلائل سن سکے وفاقی جج نے یہ بھی کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نیویارک کی ریاستی عدالت میں اپیل دائر کر سکتے ہیں یا پھر وہاں کارروائی مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کر سکتے ہیں.
فیصلے میں کہاگیا ہے کہ ان کی عدالت کے لیے انتہائی نامناسب ہوگا کہ وہ ریاست کی عدالت میں جانب داری، غیر منصفانہ اقدام یا کسی غلطی کا جائزہ لیں‘ یہ وہ مسائل ہیں جو کہ ریاست کی اعلیٰ عدالتوں کو دیکھنے ہوتے ہیں وفاقی جج ایلون ہیلیرسٹین کی عدالت سے یہ فیصلہ ایسے موقع پر سامنے آیا جب چند گھنٹے قبل ہی ٹرمپ کے وکلا نے ان کی عدالت میں کاغذات جمع کرائے تھے کہ وفاقی عدالت مذکورہ مقدمے میں مداخلت کرے.
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا نے گزشتہ ہفتے ابتدائی طور پر وفاقی عدالت سے مداخلت کی گزارش کی تھی تاہم ان کے جمع کرائے گئے کاغذات کو مسترد کر دیا گیا تھا کیوں کہ انہوں نے ضابطے کے مطابق امریکہ کے ڈسٹرکٹ جج ایلون ہیلیرسٹین سے اس کی اجازت نہیں لی تھی اس معاملے پر تبصرہ کرنے کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مین ہٹن ڈسٹرکٹ کورٹ کے اٹارنی آفس رابطہ کیا گیا ہے.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وفاقی عدالت سے مداخلت کی درخواست پر ریاست نیویارک کی مین ہٹن ڈسٹرکٹ کورٹ کے پراسیکیوٹر نے کیس کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد سزا سنانے کے مرحلے پر اس میں تاخیر کی کوشش پر اعتراض کیا ہے مین ہٹن ڈسٹرکٹ کورٹ کے اٹارنی کے دفتر نے اس کیس کی سماعت کرنے والے جج کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں دلیل دی گئی ہے کہ کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد ان پر قانونی طور پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ وفاقی جج ایلون ہیلیرسٹین کے فیصلے کا انتظار کریں اور سزا نہ سنائیں.
پراسیکیوٹرز نے کیس کا فیصلہ کرنے والے جج جان مرچن پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے وکلا کے ان دو اہم نکات پر فیصلے میں تاخیر نہ کریں جن میں ٹرمپ کی جانب سے نومبر میں صدارتی الیکشن کے بعد فیصلہ سنانے کا مطالبہ اور امریکی سپریم کورٹ کے سابق صدور کو حاصل استثنیٰ کی روشنی میں سزا اور کیس کو ختم کرنے کی کوشش شامل ہے. دوسری جانب مین ہٹن ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج جان مرچن نے کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی فیصلہ بدلنے کی درخواست پر 16 ستمبر کو احکامات جاری کریں گے ان کا سزا سنانے میں تاخیر پر فیصلہ حالیہ دنوں میں سنائے جانے کا امکان ہے واضح رہے کہ ٹرمپ پر سابق پورن اداکارہ کو رقم دینے سمیت مالی لین دین سے متعلق 34 الزامات کا سامنا ہے جسے ”ہش منی“ کیس کہا جاتا ہے ٹرمپ پر سابق اداکارہ کو ایک لاکھ 30 ہزار ڈالرز دینے کے لیے کاروباری ریکارڈ میں خرد برد سمیت دیگر الزامات ثابت ہوئے.
اس مقدمے میں نیویارک کی ایک جیوری نے سابق صدر کو تمام 34 الزامات میں مجرم قرار دیا تھا امریکی نظامِ قانون کے تحت جیوری کسی بھی ملزم پر فردِ جرم عائد کرتی ہے اور اس کے بعد عدالت فردجرم کی روشنی میں سزا سناتی ہے کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی پر امریکہ میں چار برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے جب کہ جرمانہ یا پروبیشن کی سزاوں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے نیویارک کی سپریم کورٹ نے سابق صدر ٹرمپ کے خلاف ہش منی کیس میں سزا سنانے کا فیصلہ ستمبر کے وسط تک موخر کر دیا تھا نیویارک سپریم کورٹ کے جج جان مرچن کی جانب سے 11 جولائی کو ٹرمپ کو سزا سنائی جانی تھی تاہم جج نے سپریم کورٹ کے سرکاری امور سے متعلق صدور کو حاصل استثنیٰ کے حالیہ فیصلے کے بعد سزا سنانے کے فیصلے کو 18 ستمبر تک کے لیے موخر کیا تھا.