بنگلہ دیشی صدر کے حکم پر برسوں سے جیلوں میں قید اپوزیشن رہنماوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہو گیا
ڈھاکہ ( انٹرنیشنل ڈیسک ) بنگلہ دیش میں 13 سال بعد جماعت اسلامی کا دفتر کھل گیا، بنگلہ دیشی صدر کے حکم پر برسوں سے جیلوں میں قید اپوزیشن رہنماوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تفصیلات کے مطابق بنگلاد یش کی بڑی مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کا دفتر 13 سال بعد کھول دیا گیا۔ حسینہ واجد کے ملک سے انڈیا فرار ہونے کے بعد عوام نے جماعت اسلامی کے دفاتر کو کھولنا شروع کر دیا ہے۔
تیرہ سال سے بند جماعت اسلامی کا دفتر کھلنے پر کارکنان اور دیگر رہنما جمع ہوگئے۔ امیرجماعتِ اسلامی بنگلادیش ڈاکٹرشفیق الرحمان نے سب کا خیرمقدم کیا۔ غیرملکی میڈیا کےمطابق جماعت اسلامی کے رہنما بیرسٹراحمد بن قاسم کوبھی آٹھ سال بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ بیرسٹر احمد کےبارے میں کسی کو زندہ ہونے کا یقین نہیں تھا اوران کی نماز جنازہ بھی پڑھا دی گئی تھی۔
احمد بن قاسم سزائےموت پانے والے بنگلادیش کے سب سے بڑے نجی بینک کے صدر میرقاسم علی کے صاحبزادے ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس نے احتجاج کرنے والے طلبہ کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کی سربراہی کے لیے تیار ہیں۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک تحریری بیان میں انہوں نے کہا کہ مظاہرین نے مجھ پر جو اعتماد کیا اسے میں اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں جہاں وہ مجھ سے چاہتے ہیں کہ میں عبوری حکومت کی قیادت کروں۔
84 سالہ نوبیل انعام یافتہ مائیکرو فنانس کے علمبردار نے آزاد انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بنگلہ دیش میں اقدامات کی ضرورت ہے تو اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی جرات کے لیے میں یہ منصب سنبھالنے کے لیے تیار ہوں۔انہوں نے کہا کہ عبوری حکومت صرف شروعات ہے لیکن پائیدار امن صرف آزادانہ انتخابات سے ہی آئے گا اور انتخابات کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
محمد یونس نے کہا کہ نوجوانوں نے ہمارے ملک میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے اور ان نوجوانوں میں بے پناہ ہمت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان نوجوانوں نے بنگلہ دیش کا سر فخر سے بلند کیا اور دنیا کو ناانصافی کے خلاف ہماری قوم کے عزم کا عملی مظاہرہ کیا۔ماہر معاشیات نے کہا کہ میں سیاست سے دور رہنا چاہتا ہوں لیکن اگر حالات کے پیش نظر ضرورت ہو تو حکومت کی قیادت کر سکتا ہوں۔غریب ترین لوگوں کے بینکر کے نام سے مشہور محمد یونس کو 2006 میں ان کے کام کے لیے نوبیل انعام سے نوازا گیا جہاں انہوں نے دیہی خواتین کو چھوٹی نقد رقوم بطور قرض دی تھیں تاکہ یہ خواتین کھیتی باڑی کے اوزار یا کاروباری آلات میں سرمایہ کاری کر کے اپنی کمائی کو بڑھا سکیں۔