افغانستان کی شرائط پوری کی جانی چاہئیں ہمارے لوگ امریکہ اور گوانتانا مو بے میں قید ہیں ہم ان کے لوگوں کے بدلے میں اپنے لوگ رہا کروائیں گے.طالبان حکومت کے ترجمان کی گفتگو
کابل( انٹرنیشنل ڈیسک ) افغانستان کی طالبان حکومت اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر پیش رفت ہورہی ہے افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ نے کہا ہے کہ گر امریکہ افغان قیدیوں کو رہا کر دے تو طالبان حکومت افغانستان میں قید دو امریکیوں کو رہا کرنے پر غور کر سکتی ہے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں اس ہفتے دوحہ کانفرنس میں امریکی عہدیداروں سے بات ہوئی تھی جیسا کہ اس سے پہلے بھی یہ معاملہ میٹنگز میں اٹھایا جا چکا ہے.
بین الاقوامی نشریاتی ادارے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان کی شرائط پوری کی جانی چاہئیں ہمارے لوگ امریکہ اور گوانتانا مو بے میں قید ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے لوگوں کے بدلے میں اپنے لوگ رہا کروانے چاہئیں جیسے ان کے قیدی امریکہ کے لیے اہم ہیں اسی طرح افغان ہمارے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں. ترجمان نے گوانتانا مو بے، کیوبا میں امریکی جیل میں بند افغان قیدیوں سمیت امریکی حراست میں موجود افغان شہریوں کی تفصیلات نہیں بتائیں دوحہ میں انہوں نے اقوامِ متحدہ کے تحت افغانستان کے لیے بین الاقوامی نمائندوں کی دو روزہ کانفرنس میں افغان وفد کی قیادت کی تھی.
قطر کے دارالحکومت میں ہونے والی اقوامِ متحدہ کی اس کانفرنس میں امریکی عہدیداروں نے بھی شرکت کی قبل ازیں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی، تھامس ویسٹ اور رینا امیری نے دوحہ میں طالبان نمائندوں سے ملاقات کی تھی. امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے صحافیوں کو بتایاتھا کہ ان میٹنگز کے دوران نمائندہ خصوصی ویسٹ نے افغانستان میں غیر منصفانہ طور پر قید امریکی شہریوں کی فوری رہائی پر زور دیا اور باور کروایا کہ شہریوں کی حراست، طالبان کی اس خواہش میں پیش رفت کو روک رہی ہے کہ انہیں بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جائے.
طالبان کا کہنا ہے کہ یہ دو امریکی ان متعدد غیر ملکی شہریوں میں شامل ہیں جنہیں حال ہی میں ترکِ وطن کے مقامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر افغانستان میں قید کیا گیا ہے امریکی عہدیداروں اور رشتے داروں نے ایک زیرحراست امریکی کی شناخت رائن کوربیٹ کے طور پر بتائی ہے جب کہ دوسرے شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی‘کوربیٹ کو افغانستان پر طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد اگست 2022 میں حراست میں لیا گیا تھا افغان جنگ میں تقریباً 20 سال کی شمولیت کے بعد امریکی زیر قیادت مغربی فوجیوں کے انخلاءکے بعد کابل میں بنیاد پرست طالبان اگست 2021 میں اقتدار میں واپس آئے تھے.
کوربیٹ کے اہل خانہ اور امریکی قانون سازوں نے بارہا امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ ان کی محفوظ اور جلد رہائی کے لیے مزید اقدامات کریں اپنی حراست کے بعد سے، کوربیٹ اپنی بیوی اور تین بچوں سے فون پر بات کرتے رہے ہیں رشتے دار اور سرگرم کارکن کہتے ہیں کہ تیسرے امریکی قیدی کا نام محمود حبیبی ہے جو دیگر غیر ملکیوں کے ساتھ حراست میں ہیںان کا کہنا ہے کہ حبیبی کو اگست 2022 میں ان کے گھر کے باہر سے حراست میں لیا گیا.
طالبان کے انٹیلی جینس کے ادارے کو شبہ تھا کہ حبیبی امریکہ کے اس ڈرون حملے میں ملوث تھا جس میں القاعدہ نیٹ ورک کے مفرور سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت ہوئی انسانی حقوق اور خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں تک رسائی پر پابندی پر تشویش کے باعث اب تک کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا .