جج جان مرچن کی جانب سے 11 جولائی کو ٹرمپ کو سزا سنانی تھی‘فیصلے سے انتخابی دوڑمیں شامل سابق صدر کو کسی قانونی رکاوٹ کے بغیرانتخابی مہم چلانے میں مدد ملے گی. امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ
نیویارک ( انٹرنیشنل ڈیسک ) نیویارک کی سپریم کورٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہش منی کیس میں سزا سنانے کا فیصلہ ستمبر کے وسط تک موخر کر دیا ہے نیویارک سپریم کورٹ کے جج جان مرچن کی جانب سے 11 جولائی کو ٹرمپ کو سزا سنائی جانی تھی تاہم جج نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد سزا سنانے کے فیصلے کو 18 ستمبر تک کے لیے موخر کر دیا ہے یہ فیصلہ ایسے موقع پر آیا ہے جب ٹرمپ رواں برس پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں.
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ٹرمپ پر سابق پورن اسٹار کو رقم دینے سمیت مالی لین دین سے متعلق 34 الزامات کا سامنا ہے جسے ”ہش منی“ کیس کہا جاتا ہے اس مقدمے میں نیویارک کی ایک جیوری نے سابق صدر کو تمام 34 الزامات میں مجرم قرار دیا تھا‘امریکی نظامِ قانون کے تحت جیوری کسی بھی ملزم پر فردجرم عائد کرتی ہے اور اس کے بعد عدالت فردجرم کی روشنی میں سزا سناتی ہے.
قبل ازیںامریکہ کی سپریم کورٹ نے پیر کو اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ٹرمپ کو سرکاری حیثیت میں کیے گئے اقدامات پر عدالتی کارروائی سے مکمل استثنیٰ حاصل ہے البتہ اس فیصلے کا اطلاق ایسے اقدامات پر نہیں ہوتا جو غیر سرکاری تصور ہوتے ہیںجبکہ امریکی صدر بائیڈن نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تنقید کی جس میں عدالت نے امریکی صدور کو اپنے عہدہ کی مدت میں، کارِ سرکار کے معاملے میں قانونی کارروائی سے استثنیٰ دیا تھا.
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سابق صدر ٹرمپ کے 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج کو مبینہ طور پر تبدیل کرنے سے متعلق دیاتھا جس پر صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں ہے حتیٰ کہ امریکہ کا صدر بھی انہوں نے صدارتی اختیارات کی حدود کا احترام کرنے کا عزم کیا اور انتباہ کیا کہ مستقبل کے صدور ایسا نہیں کریں گے جوبائیڈن کا کہنا تھاکہ کوئی بھی صدر، چاہے ڈونلڈ ٹرمپ ہوں، اب قانون کو نظرانداز کرنے میں آزاد ہوگا.
سابق صدرٹرمپ نے دعوی کیا تھا کہ انہیں سال 2020 کے الیکشن کے نتائج الٹنے کی کوشش کے معاملے پر عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں طویل عرصے سے موجود قانونی اصولوں پر موجودہ برسوں میں ہونے والے حملے کی ایک کڑی ہے امریکی سپریم کورٹ کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سرکاری امور کے معاملے میں قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے لیکن اس کا اطلاق غیر سرکاری معاملات پر نہیں ہوتا واضح رہے کہ ٹرمپ کے حامیوں نے چھ جنوری 2021 کو کانگریس کی عمارت پر اس وقت حملہ کر دیا تھا جب وہاں موجودہ صدر جو بائیڈن کی سال 2020 کے انتخابات میں کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا.
ٹرمپ رواں سال ہونے والے امریکی الیکشن میں ری پبلکن پارٹی کے ممکنہ امیدوار ہیں اگر وہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو وہ استغاثہ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے قابل ہوں گے9 ارکان پر مشتمل امریکی سپریم کورٹ کے چھ قدامت پسند ججوں نے ٹرمپ کے استثنیٰ کے فیصلے کے حق میں رائے دی جسے چیف جسٹس جان رابرٹس نے تحریری طور پر جاری کیا عدالت کے لبرل ونگ کے تین ارکان نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا.