18ویں لوک سبھا کے پہلے اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی سمیت 9منتخب اراکین پارلیمنٹ بھی حلف اٹھایا ہے. بھارتی ذرائع ابلاغ
اسلام آباد ( انٹرنیشنل ڈیسک ) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے لوک سبھا کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے اپوزیشن کی جانب سے احتجاج اور شورشرابے میں نریندرمودی نے ایوان میں حلف لیا. بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق 18ویں لوک سبھا کے پہلے اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی سمیت 9منتخب اراکین پارلیمنٹ بھی حلف اٹھایا ہے.
بھارتی ذرائع ابلاغ کا پہلے اجلاس سے متعلق کہنا ہے کہ لوک سبھا کا یہ اجلاس طوفانی ہو سکتا ہے کیونکہ اپوزیشن 26 جون کو اسپیکر کے انتخاب پر حکمراں جماعت بی جے پی کی زیرقیادت سیاسی اتحاد این ڈی اے حکومت کو گھیرے میں لے سکتی ہے.
یاد رہے کہ بھارت میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات کے بعد 18ویں لوک سبھا کا یہ پہلا اجلاس ہے جس میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) نے 293 سیٹیں حاصل کیں جبکہ اس کے مدمقابل کانگریس کی زیرقیادت سیاسی جماعتوں کے اتحاد” انڈیا“نے 234 جبکہ کانگریس پارٹی نے 99 سیٹیں حاصل کی ہیں واضح رہے کہ نریندر مودی نے بحیثیت بھارتی وزیر اعظم تیسری بار حلف 9 جون کو اٹھایا تھا.
بی جے پی کے کئی نئے اتحادی شراکت دار سیکولرسمجھے جاتے ہیں اور انہیں مسلمانوں کی کافی حمایت حاصل ہے جو جماعتوں کی جانب سے کسی بھی سخت گیر پالیسی کو مسلم مخالف سمجھتے ہیں بی جے پی کی ایک اتحادی پارٹی ،تلگو دیشم کے راہنما ﺅں نے کہا ہے کہ متنازعہ پالیسیوں پر بی جے پی کوئی بھی فیصلہ یکطرفہ طور پر نہیں کرے گی. انتخابات کے دوران سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے غیر متوقع طور پر بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جسے حیرت انگیز کہا جا سکتا ہے مبصرین اسے کانگریس کی سیاسی میدان میں واپسی کے طور پر دیکھ رہے ہیں اپوزیشن کے محاذ ”انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیوسیو الائنس“ (انڈیا) کی مضبوط اپوزیشن کی وجہ سے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے بی جے پی اور نریندر مودی کے لیے اب اپنی خواہش کے مطابق حکومت چلانا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ ان کی حکومت کو دو حلیف جماعتوں ”تیلگو دیسم پارٹی“ اور”جنتا دل یونائٹڈ“ کے رحم و کرم پر رہنا ہو گا جو سیکولر نظریات کی حامی ہیں.
ان دونوں پارٹیوں کو مجموعی طور پر 28 سیٹیں ملی ہیں اور انہی 28نشستوں کی وجہ سے نریندرمودی تیسری مرتبہ سادہ اکثریت سے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوپائے ہیں قابل ذکر ہے کہ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم مودی نے کانگریس پر بار بار الزام لگایا تھا کہ وہ سرکاری ملازمتوں میں دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کو حاصل ریزرویشن (یعنی ان کے لیے سیٹوں کا کوٹہ) مسلمانوں کو دے دے گی لیکن اسی دوران تلگو دیشم کے سربراہ چندر بابو نائڈو نے اعلان کیا تھا کہ اگر ریاست میں ان کی پارٹی کی حکومت بنی تو وہ پسماندہ مسلمانوں کو ملازمتوں میں چار فی صد ریزرویش دے گی آندھرا پردیش میں اسمبلی انتخابات بھی ہوئے ہیں اور تلگو دیشم پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے.
بھارتی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت نے اپوزیشن کو کمزور کرنے کی پوری پوری کوشش کی اور حزب اختلاف کے راہنماﺅں کا الزام ہے کہ ان کے خلاف سرکاری اداروں جیسے کہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی)، سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) اور محکمہ انکم ٹیکس کا استعمال کیا گیا یاد رہے کہ ای ڈی نے منسوخ شدہ متنازع دہلی شراب پالیسی معاملے میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ہے نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا کو پہلے ہی جیل میں ڈالا جا چکا ہے عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ کو جیل بھیجا گیا تھا لیکن وہ ضمانت پر باہر ہیں.
اسی طرح جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین کو بھی مالی بدعنوانی کے ایک کیس میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا ہے اپوزیشن راہنماﺅں نے مودی سرکار پر سیاسی انتقام کا الزام عائدکرتے ہوئے اسے انتخابی میدان میں اپوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش قراردیا تھاجبکہ مودی سرکار کا موقف رہا ہے کہ سرکاری ایجنسیاں آزاد ہیں اور وہ بدعنوانی کے خلاف اپنے طور پر کارروائی کر رہی ہیں اس کا یہ بھی استدلال ہے کہ وہ بدعنوان سیاست دانوں کو چھوڑے گی نہیں گزشتہ پارلیمان میں جب حکومت کی متنازع پالیسیوں کے خلاف اپوزیشن ارکان احتجاج کرتے تو انہیں ایوان سے معطل کیا جاتا رہا اور پارلیمان کے 150اپوزیشن ارکان کو معطل کر دیا گیا تھا مگر مبصرین کے مطابق مودی سرکار کے لیے اب شاید ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا.