ملک میں جنگلات کا رقبہ2021 میں 4اعشاریہ8 فیصد تھا جوعالمی معیار کے مطابق25فیصد ہونا چاہیے‘ موسمی اثرات کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیئے جاتے اور گرمی کی شدت میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تواس کے نقصانات اٹیمی جنگ سے زیادہ بھیانک ہونگے‘گرمی کی شدت سے آنے والے چند سالوں میں پانی کا بہت بڑا بحران پیدا ہونے کا خطرہ ہے.ماہرین کا انتباہ
اسلام آباد ( انٹرنیشنل ڈیسک ) پاکستان اوربھارت میں اس سال موسم گرما قیامت ڈھا رہا ہے اور خطے میں اوسط درجہ حرارت میں 5سے10ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جوماہرین کے نزدیک انتہائی تشویشنا ک ہے دونوں ہمسایہ ممالک کے بڑے شہر شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں بعض علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا ہے یہ صورتحال دور دراز صحرائی علاقوںمیں نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں میں ہے.
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی گرمی میں کچھ خطرات تو ایسے ہیں جن کا لوگوں کو ٹھیک طرح سے علم بھی نہیں گزشتہ روز شدید گرمی سے بھارتی ریاست بہار میں 14 جبکہ اڑیسہ میں 4 افراد ہلاک ہو گئے تھے ماحولیات کی تنظیم ”کلائمیٹ ٹرینڈز“ کا کہنا ہے کہ شہروں کے بغیرمنصوبہ بندی کے پھیلاﺅ کی وجہ سے پچھلے تیس ‘چالیس سال کے دوران جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی‘شہروں میں گاڑیوں‘ایئرکنڈنشنگ اور دیگر مشینوں سے پیدا ہونے والی گیسوں اور حرارت کے علاوہ عمارتوں کے طرزتعمیر میں بڑے پیمانے پر کنکریٹ کا استعمال درجہ حرارت میں اضافے کی وجوہات میں شامل ہیں .
ماہرین کے نزدیک سمندروں کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے جس کے ذمہ دار سعودی عرب‘متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک ہیں جن کی شپنگ لائنز‘ساحلوں پر بڑے پیمانے پر دھاتوں‘کنکریٹ اور شیشے کے استعمال سے بنائی جانی والی بڑی عمارتوں‘ساحلی شہروں کے قریب تیل صاف کرنے والے کارخانوں اور فضائی ٹریفک میں بہت زیادہ اضافے کے ذریعے سمندراور خطے کے مجموعی درجہ حرارت میں اضافہ کررہے ہیں جبکہ بھارت اور پاکستان کی دوسری جانب چین جیسا دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک ہے مگر ان سب عوامل کے باوجود ماہرین متفق ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے درجہ حرارت میں اتنا زیادہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس میں آنے والے وقت کے ساتھ مزید اضافے کی توقع ہے .
عالمی سطح پر طے شدہ میعارات کے مطابق کسی بھی ملک کے مجموعی رقبے کا25فیصد تک جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق سال 1990 میں ملک کے کل رقبے کا 6اعشاریہ5 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل تھا جو کہ سال2021 میں کم ہو کر 4اعشاریہ8 فیصد رہ گیا ہے جبکہ2024تک اس میں مزید کمی آئی ہے اسی طرح بھارت میں جنگلات کا رقبہ ملک میں مجموعی رقبے کا 21اعشاریہ71فیصد ہے مگر بڑے شہروں کے گرد ونواح میں آبادی کے پھیلاﺅ کی وجہ سے ”اربن فارسٹ“کا رقبہ خطرناک حد تک سکڑگیا ہے .
ماہرین کا کہنا ہے دونوں ہمسایہ ممالک میں زمینوں کے کاروبار سے پیسہ کمانے میں حکومتیں بھی شامل رہی ہیں لہذا انہوں نے جنگلات اور کھلے زرعی علاقوں کے خاتمے کی بھاری قیمت پرکوڑیوں کے بھاﺅ والی زمینیں کروڑوں روپے روپے میں اپنے فرنٹ مینوں یا سرکاری اداروں کے ذریعے فروخت کرکے رہائشی منصوبوں کو فروغ دیا اربنائزیشن کی وجہ سے جہاں پاکستان جیسے ملک زرعی ملک کو گندم جیسی بنیادی جنس درآمد کرنا پڑتی ہے وہیں دالوں کی پیدوار تقریبا نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ‘ڈیری مصنوعات اور گوشت کی ضروریات پوری کرنا بھی چیلنج بنتا جارہا ہے اس لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ موسمی اثرات کو روکا جاسکے کیونکہ اگر موسمی اثرات کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیئے جاتے اور گرمی کی شدت میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو آنے والے چند سالوں میں پانی کا بہت بڑا بحران پیدا ہونے کی وارننگ ماہرین کئی سالوں سے دیتے آرہے ہیں لاہور جیسے شہر میں زیرزمین پانی 550فٹ سے زیادہ نیچے جاچکا ہو جو کہ1980کی دہائی میں محض70/80فٹ تھا .
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسموں کی شدت سے آنے والی تباہی ایٹمی جنگ سے بھی خطرناک ہوسکتی ہے اس لیے حکومتوں کو جنگی بنیادوں پر اقدامات شروع کرنا ہونگے‘پاکستان میں ”لیو فاﺅنڈیشن“کے سیکرٹری اور سنیئرصحافی میاں محمد ندیم ماحولیاتی پر دودہائیوں سے لکھ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ لاہور کی مثال اس لیے قابل عمل اور منطقی ہے کہ ہم تین ‘چار نسلوں سے لاہور کے رہائشی ہیں 1980تک لاہور کی شہری آبادی ملتان روڈ پر سکیم موڑ‘فیروزپورروڈ پر چونگی امرسدھو‘جی ٹی روڈ پر شاہدرہ اور کینٹ کی جانب فوٹریس اسٹیڈیم کے پل سے پہلے‘ کینال روڈ پر دھرپورہ پر ختم ہوجاتی تھی ان حدود سے آگے نواحی دیہات شروع ہوجاتے تھے جو نہ صرف لاہور کو تازہ سبزیاں‘دودھ اور گوشت فراہم کرنے کرتے تھے بلکہ شہرکو ایک محفوظ ماحولیاتی حصار میں بھی لے رکھا تھا ان دیہاتوں نے.
ان کا کہنا ہے کہ شہر کے اندر بھی درختوں کی بہتات تھی اس کے بعد ”ترقی“کا دور شروع ہونے سے درختوں کا جس بے دردی سے قتل عام کیا گیا اس کا اندازہ پنجاب حکومت کی لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی جانی والی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق پنجاب حکومت نے ٹھوکر سے مال روڈ تک نہر کے اطراف سڑکوں کے صرف ایک توسیعی منصوبے میں 70ہزار سے زیادہ درخت کاٹے جن میں کئی سوسال سے بھی زیادہ پرانے تھے یہ صرف ایک توسیعی منصوبہ ہے ‘میاں ندیم کے مطابق ملتان روڈ کے دونوں اطرف درختوں کی قطاریں موجود ہوتی تھی آج محض چند آرائشی پودوں کے کچھ نظرنہیں آتا.
انہوں نے کہا کہ یہ حکومتوں کی ناکامی ہے کہ انہوں نے اربنائزیشن کو روکنے کے لیے بروقت اقدامات نہیں کیئے اگر ہر ڈویژنل ہیڈکواٹرمیں ایک بڑا ہسپتال‘یونیورسٹی‘میڈیکل اور انجنئیرنگ کالجوں کے کمپیس ‘چھوٹے شہر جو بڑے شہروں سے روڈ اور ریل روٹوں سے پہلے ہی جڑے ہوئے تھے سفرکے دونوں ذرائع کو بہتر بنادیا جاتا تو اربنائزیشن کو75فیصد تک روکا جاسکتا تھا مگر ہر حکومت نے مجرمانہ غفلت برتی انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کے تحت 1980کی دہائی میں عالمی اداروں کی مدد سے چلنے والے ”رولرسپورٹ“پروگراموں کے اعدادوشمار کے لیے انہوں نے کئی مرتبہ سرکاری اداروں سے رابط کیا ہے مگر کسی کو معلوم نہیں کہ ان کا ریکارڈ کہا ں ہے تاہم آزاد ذرائع کا دعوی ہے کہ وفاق اور صوبوں کے تحت چلنے والے”رولرسپورٹ“پروگراموں پر عالمی اداروں سے ملنے والی امداد کاپچاس فیصد بھی خرچ کیا جاتا تو ہمارے دیہات کسی بھی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے دیہات سے پیچھے نہ ہوتے.
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں افریقہ اور بھارت میں ”کیکر“کے جنگلات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جوکہ ”کیکر“سے حاصل ہونے والی گوند کا 90فیصد سے زیادہ دنیا کوبرآمد کرتے ہیں دنیا میں ”نیم “کی مصنوعات اور پتوں کے پاوڈرکا تقریبا80فیصد بھارت سپلائی کررہا ہے اسی طرح ”ایلوویرا“جیل اور پتے کے پاوڈر سمیت اس پر لگنے والے بیج کی چائے کا 100فیصد کے قریب بھارت برآمد کررہا ہے‘”بکائین “کے پتے اور چھال بھی میک اپ انڈسٹری اور دواسازانڈسٹری میں بہت زیادہ استعمال ہورہا ہے ”نیم “کا درخت اوسطا تین سال میں جبکہ ”بکائن“ کا درخت2سال تیار ہوجاتا ہے مگر یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہماری حکومتوں کا زور درآمدشدہ پودوں پر کیوں ہے؟جو ہماری آپ وہوا سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے نہ صرف زمین کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ پانی بھی زیادہ استعمال کرتے ہیں.
ماحولیاتی امور کے بھارتی ماہر نوین کھڑکا کا کہنا ہے کہ یہ ہیٹ ویو یعنی شدید گرمی کی لہر اور ایکسٹریم ویدر پیٹرن عالمی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیں ہمارے شہروں، ہمارے گھروں میں جس طرح کا انفراسٹرکچر ہے اور جس طرح کی ان کی بناوٹ ہے وہ اس طرح کے بدلتے موسم کے لیے موزوں نہیں ہیں اسی طرح شہروں میں درختوں کے کٹاﺅ کا رجحان موسموں کی شدت میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ اربن پلاننگ اور عمارتوں کی تعمیر میں ماحول دوست یا اِیکو فرینڈلی طریقے رائج کیے جائیںجیسا کہ کراچی کے گرین آفس کمپلکس، انڈس ویلی سکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹکچر، اور اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں اپنائے گئے ہیں آبادیوں کے اندر اور گردنواح میںکھلے سبزعلاقوں میں اضافہ، بہتر پبلک ٹرانسپورٹ، کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے باقاعدہ انتظام کے ساتھ ساتھ سولر پینلز کی تنصیب، تجارتی، تفریحی اور دیگر شہری سہولتوں کی رہائشی علاقوں کے قریب فراہمی بہت اہم ہیں اس کے علاوہ گھر کے اندر اور باہر ہریالی جیسے اقدامات گرمی کی شدت کو خاصی حد تک کم کر سکتے ہیں عمارتوں میں ماحول دوست اور اینرجی ایفیشینٹ کنسٹرکشن میٹریل کا استعمال اور روشنی اور تازہ ہوا کی آمد و رفت یقینی بنانے کے لیے گرین بلڈنگ کوڈ پرووِیڑنز سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے.
کلائمیٹ چینج سے متعلق پیرس ایگرِیمنٹ کا ایک فریق ہونے کے ناطے پاکستان نے پالیسی اور بلڈنگ ریگیولیشنز کی حد تک مختلف اقدامات کیے ہیں مگر عمل درآمد کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا پاکستان اور بھارت میں گرمی کی لہر کوئی نئی بات نہیں لیکن نئی بات یہ ہے کہ ہر سال درجہ حرارت میں درجہ بہ درجہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے مئی میں جون جولائی کی گرمی اور وہ بھی 50 ڈگری سے زیادہ بہت تشویش کی بات ہے امریکہ کے محکمہ موسمیات”ایکیو ویدر“ کے سربراہ ڈاکٹر جوئلی مائر کہتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت جو درجہ حرارت چلتا آ رہا ہے اس میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے ابھی اس میں بہت تحقیق کی ضرورت ہے لیکن ہمیں اتنا ضرور معلوم ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت کا اثر الگ الگ علاقوں میں الگ الگ ہو گا بھارت اور پاکستان جیسے خطوں میں عالمی اوسط کے مقابلے میں درجہ حرارت میں کہیں زیادہ اضافہ ہو گا ڈاکٹر مائر کہتے ہیں کہ شدید گرمی کی صورتحال پاکستان ‘بھارت اور بعض صحرائی خطوں میں جہاں موسم گرما کا درجہ حرارت پہلے ہی انسانی برداشت کی حد کو چھو رہا ہے، تشویش کا باعث ہے ان خطوں میں اس وقت ہم جو ریکارڈ گرمی دیکھ رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے خاص طور سے کم عمر کے لوگوں، بزرگوں اور ان لوگوں کے لیے جن کی قوت مدافعت کمزور ہے.
پاکستان میں شدید گرمی کا آغاز مئی کے وسط سے ہی ہو چکا تھا محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی تھی کہ 23 مئی سے ملک کے بیشتر علاقوں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں ہائی پریشر کی موجودگی کے سبب گرمی کی لہر مئی کے اواخر تک جاری رہ سکتی ہے‘گذشتہ ایک ہفتے سے پنجاب، سندھ، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں درجہ حرارت معمول سے چار سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا گرمی کی اس شدید لہر کے دوران جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں درجہ حرارت اب 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر چکا ہے.
لاہور میں درجہ حرارت 46 ڈگری تک پہنچ چکا ہے درجہ حرارت اگر صرف 32 ڈگری سے 40 ڈگری کے درمیان ہو تو ہیٹ کریمپس اور گرمی کے باعث توانائی میں کمی کا خطرہ ہو جاتا ہے 40 سے زیادہ کا مطلب خطرہ ہے کیونکہ بہت زیادہ درجہ حرارت میں ہیٹ سٹروک، آرگن فیلیئر تک کا خطرہ بھی ہو جاتا ہے.