تیسرے سال بھی آم کی پیداوار میں نمایاں کمی

کراچی (این این آئی) آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے رواں سیزن آم کی برآمد کا ہدف 25 ہزار ٹن کم کرکے ایک لاکھ ٹن مقرر کردیا، آم کی ایکسپورٹ کا آغاز 20 مئی سے ہوگا۔آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلی وحید احمد کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان میں آم کے باغات پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس سے پیداوار میں نمایاں کمی کا سامنا ہے اور ایکسپورٹ کوالٹی کا آم دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ سال بھی ایکسپورٹ کا ہدف پورا نہ ہوسکا، اس سال ایکسپورٹ کا ہدف ایک لاکھ ٹن رکھا گیا ہے جبکہ گزشتہ سال ایکسپورٹ کا ہدف ایک لاکھ پچیس ہزار ٹن تھا تاہم آم کی ایکسپورٹ ایک لاکھ ٹن رہی، رواں سیزن ایک لاکھ ٹن ایکسپورٹ سے 90ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔

وحید احمد نے کہا کہ اس سال افغانستان کے راستے سینٹرل ایشیائی ممالک اور ایران کی مارکیٹ کو مستحکم کیا جائے گا جبکہ چین کی مارکیٹ جہاں گزشتہ سیزن سے ایکسپورٹ کا آغاز ہوا اس سال والیوم بڑھانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی، اس کے ساتھ آسٹریلیا، جاپان، امریکا جیسی ویلیو ایڈڈ مارکیٹ میں بھی ایکسپورٹ بڑھانے کی کوشش کریں گے، رواں سیزن ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے ترکی اور مشرق بعید کے ملکوں میں پاکستانی آم کی پروموشن کی جائے گی۔وحید احمد نے کہا کہ اس شعبے کو مہنگی بجلی گیس، ٹرانسپورٹیشن، باغات کی دیکھ بھال، زرعی ادویات اور پانی کے انتظام کے اخراجات میں نمایاں اضافہ کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے جس سے ایکسپورٹ کے لیے مسابقت مشکل ہورہی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات آم کی پیداوار کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلسل تیسرے سال آم کی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں 18 لاکھ ٹن آم پیدا ہوتا ہے جس میں سے 70 فیصد پنجاب، 29 فیصد سندھ اور ایک فیصد خیبرپختون خوا میں پیدا ہوتا ہے، اس سال موسمیاتی اثرات کی وجہ سے پنجاب کی پیداوار 35 سے 40 فیصد جبکہ سندھ کی پیداوار 20فیصد تک کم ہے جس سے مجموعی پیداوار 6لاکھ ٹن تک کم رہنے کا خدشہ ہے، پنجاب میں موسمیاتی اثرات کی وجہ سے آم کی پیداوار میں 5لاکھ ٹن جبکہ سندھ میں ایک لاکھ ٹن کمی کا سامنا ہے اس طرح مجموعی پیداوار 18لاکھ ٹن کے اوسط کے مقابلے میں 12لاکھ ٹن رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے یہ تخمینہ پیداوار کے آغاز پر لگایا گیا ہے اور سیزن آگے بڑھنے پر اس میں مزید اضافہ کا بھی امکان ہے۔وحید احمد نے کہا کہ آم سمیت پھلوں کی کاشت اور زرعی شعبہ پر موسمیاتی اثرات ہر سال بڑھ رہے ہیں، موسم سرما کا دیر تک رہنا، بارشیں اور ژالہ باری کے بعد اب سخت گرمی کی لہر نے موسم کے ساتھ زرعی بیماریوں کے پیٹرن کو تبدیل کردیا ہے۔ زرعی شعبہ کو موسمیاتی اثرات سے بچانے کے لیے وفاق اور صوبوں کی سطح پر اقدامات کا فقدان ہے بالخصوص تحقیق کے زریعے آم سمیت دیگر اہم پھلوں کے باغات کو موسم کی سختیوں کے قابل بنانا اور موسمیاتی اثرات کیو جہ سے بیماریوں سے مزاحمت کی قوت میں کمی کو دور کرنے کے لیے تحقیق پر مبنی حل فوری تلاش کرنے ہوں گے بصورت دیگر آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ خطرے میں پڑی جائے گی۔

وحید احمد نے کہا کہ وفاق اور صوبوں میں زرعی تحقیق کے مراکز کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرکے کسانوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنا ہوگی کیونکہ آنے والے سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات مزید بڑھ جائیں گے تا وقتیکہ کہ کسانوں کو تحقیق پر مبنی حل نہ مہیا کیے جائیں، آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت رکھنے والی آم کی نئی ورائٹیز کے لگائے جائیں اسی طرح موسمیاتی اثرات کی وجہ سے شدت اختیار کرنے والی بیماریوں کی روک تھام اور موزوں زرعی ادویات کی فراہمی بھی وقت کی ضرورت ہے۔