نئی دہلی (این این آئی)بھارتی عدالتیں دنیا بھر میں منفرد اور دلچسپ کیسز کے باعث توجہ حاصل کر لیتی ہیں، جہاں بھارتی شہری کچھ ایسی درخواستوں کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتے ہیں جو کہ حیران کر دیتی ہیں۔تاہم ان دنوں الہ باد ہائیکورٹ کی جانب سے پٹیشن پر کچھ ایسے ریمارکس دیے گئے ہیں جو کہ سب کو حیران کر رہے ہیں۔بھارتی الہ باد ہائیکورٹ کی جانب سے مسلمانوں کی شادی سے متعلق ایک فیصلہ دیا گیا ہے، جس نے سب کی توجہ حاصل کر لی ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق الہ باد ہائیکورٹ میں جوڑے کی جانب سے ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی، یہ درخواست دراصل بین المذاہب جوڑے کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔جبکہ خاتون کی جانب سے درخواست اس وقت دائر کی گئی، جب ان کے گھر والوں نے اس کے شوہر کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرا دی۔
تاہم اس پر الہ باد ہائیکورٹ کی جانب سے روولنگ میں کہنا تھا کہ ایک شادی شدہ مسلمان ناجائز تعلقات کا دعوی نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ یہ تعلقات اسلام میں جائز نہیں ہے۔جسٹس اے آر مسعودی اور اے کے سری واستاوا کی جانب سے بینچ کی سماعت کی گئی تھی، جس میں عدالت کا کہنا تھا کہ اسلامی تعلیمات شادی شدہ مسلمان کو ناجائز تعلقات کی اجازت نہیں دیتی ہے۔تاہم عدالت کی جانب سے مزید کہنا تھا کہ صورتحال اس وقت یکسر مختلف ہوگی اگر جوڑا جو ایک ساتھ رہ رہا ہے بالغ ہے اور دونوں کا شریک حیات موجود نہ ہو۔بینچ نے یہ بھی کہا کہ شادی کے اداروں کے معاملے میں آئینی اخلاقیات اور سماجی اخلاقیات کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔ اس توازن کی عدم موجودگی میں، معاشرے میں امن و سکون کے لیے درکار سماجی ہم آہنگی، مٹ جائے گی اور ختم ہو جائے گی،واضح رہے پٹیشن سنیہا دیوی اور ان کے شوہر محمد شاداب خان کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جس میں والدین کی جانب سے پولیس کو دی گئی درخواست پر شوہر کی حفاظت کی درخواست کی گئی تھی۔