نئی دہلی نے بیجنگ کی جانب سے مقامات کے نام تبدیل کرنے کو ”بے ہودہ کوشش“قراردے دیا
نئی دہلی/بیجنگ( انٹرنیشنل ڈیسک ) بھارت نے چین کی جانب سے اروناچل پردیش میں مقامات کے نام بدلنے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے چین کی وزارت برائے شہری امور نے ہفتے کے روز متنازعہ سرحدی علاقے میں 30 نئے نام جاری کیے، جسے وہ زنگنان کہتے ہیں اور تبت کے خود مختار علاقے کا حصہ سمجھتا ہے، چینی جریدے” گلوبل ٹائمز“ کے مطابق نام تبدیل کرنے کی فہرست میں 11 رہائشی علاقے، 12 پہاڑ، چار دریا، ایک جھیل، ایک پہاڑی درہ اور زمین کا ایک ٹکڑا شامل ہیںجن میں سے 30 کو نئے نام تبتی اور پنین میں دیئے گئے ہیں جو مینڈارن چینی کے رومن حروف تہجی کا ورژن ہے.
بیجنگ نے اس سے قبل 2017 میں متنازعہ علاقے میں چھ مقامات کے نام تبدیل کرنے کی پہلی فہرست جاری کی تھی 2021 میں 15 مقامات کی دوسری فہرست اس کے بعد گزشتہ سال ایک اور فہرست جاری کی گئی تھی جس میں 11 مقامات کا نام تبدیل کیا گیا تھا. 3,488 کلومیٹر طویل لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ واقع اس علاقے کے دونوں ملک دعویدار ہیں جو دونوں پڑوسیوں کو الگ کرتی ہے بھارتی وزارت خارجہ نے چین کی جانب سے مقامات کے نام تبدیل کرنے کو ”بے ہودہ کوشش“قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس طرح کی کوششوں کو سختی سے مسترد کرتے ہیں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے چین کی جانب سے مقامات کے نام تبدیل کرنے کو بے معنی اور اشتعال انگیزقرار دیا ہے انہوں نے کہا کہ نئی دہلی ایسی کوششوں کوسختی سے مسترد کرتا ہے اور پورے اروناچل پردیش کو ہندوستان کا اٹوٹ اور ناقابل تنسیخ حصہ سمجھتا ہے.
بیجنگ نے گزشتہ ماہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے زنگنان/اروناچل پردیش کے دورے پر ایک سرنگ کا افتتاح کرنے پر تنقید کی تھی جس سے ممالک کی متفقہ سرحد پر ہندوستانی فوجیوں کی تعیناتی میں تیزی آسکتی ہے نئی دہلی نے جواب میں کہا کہ بے بنیاد دلائل کو دہرانے سے اس طرح کے دعوﺅں کی صداقت ثابت نہیں ہوتی. دونوں ممالک نے گزشتہ ہفتے سرحدی مذاکرات کا ایک نیا دور منعقد کیا تھاتاہم بات چیت میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی حالانکہ دونوں ممالک کی جانب سے مکمل سنجیدگی کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا2020میںلداخ کے علاقے وادی گالوان میں تصادم کے سے ہندوستان اور چین کے درمیان سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہواتھا اور اس دوران دونوں طرف سے ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں.
ان واقعات کے بعد ہندوستانی فوج نے اعلیٰ سطح کی جنگی تیاری کو برقرار رکھا ہوا ہے جبکہ چینی حکومت نے ”اپ گریڈ پالیسی“کے تحت علاقے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیرات کو تیز کردیاتھا. دریں اثناءواشنگٹن نے اروناچل پردیش کو ہندوستان کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے چین کی سرحد ی علاقے سے متعلق پایسی کی سخت مخالفت کی جس کے جواب میں چینی وزارت خارجہ نے امریکی بیانات کی سختی سے مذمت کی اور انہیں اپنے اندورنی معاملات میں مداخلت قراردیا قبل ازیں” گلوبل ٹائمز“ نے اپنے اداریے میں دعویٰ کیا تھا کہ کہ امریکہ کا یہ اقدام بظاہر بھارت کی مدد کرنا ہے لیکن حقیقت میں یہ بھارت کو ایک” پرکشش“ زہر دے رہا ہے.