سعودی خاتون نے دنیا کی پہلی تھری ڈی پرنٹڈ مسجد تعمیر کر لی

ریاض(این این آئی)سعودی عرب کی ایک کاروباری خاتون وجنات عبدالوحید نے دنیا کی پہلی تھری ڈی پرنٹڈ مسجد کی تعمیرسے اپنے مرحوم شوہر کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق خاتون کے مرحوم شوہر کے نام پر عبدالعزیز عبداللہ شربتلی نامی مسجد جدہ کے مضافاتی علاقے الجوارہ میں واقع ہے۔ اس اقدام سے خاتون نے دبئی کے عزائم کو بھی شکست دے دی جس کا 2025 تک تھری ڈی پرنٹڈ مسجد تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔تھری ڈی پرنٹنگ روایتی کنکریٹ کے بجائے عمارتوں کی تیزی سے تعمیر کی اجازت دیتی ہے۔ یہ نقطہ نظر دور دراز مقامات پر تعمیر کرتے وقت یا قدرتی آفت کے ردعمل کے طور پر کام آسکتا ہے۔

تاہم جیسے جیسے ٹیکنالوجی مرکزی دھارے میں آرہی ہے اسے روایتی تعمیراتی طریقوں کی جگہ لینے کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔دنیا کا تھری ڈی پرنٹنگ دارالحکومت بننے کے عزائم کے ساتھ دبئی نے اس ٹیکنالوجی کے ساتھ 25 فیصد نئی عمارتوں کی تعمیر کے منصوبوں کا انکشاف کیا ہے. اس میں 21،500 مربع فٹ کی ایک مسجد بھی شامل ہے جو 2025 تک مکمل ہوگی۔خاتون کی تعمیر کردہ تھری ڈی پرنٹڈ اس مسجد کو نیشنل ہاسنگ کمپنی کی بھی حمایت حاصل رہی۔ سرکاری حکام اورکاروباری رہنمائوں نے گزشتہ ہفتے منعقدہ افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کی تھی۔خاتون نے 60،000 مربع فٹ پر محیط اس مسجد کی تعمیر کی قیادت کرتے ہوئے چینی ٹیکنالوجی فرم گوانلی سے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی شروع کی۔ روایتی تعمیرات کے برعکس اس منصوبے کا کام اور عمل درآمد بہت مختلف انداز میں کیا گیا جس میں عمارت کے ڈیزائن پر بہت زیادہ توجہ دی گئی۔عرب ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کاروباری خاتون نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اس ڈیزائن کا مقصد نمازیوں میں سکون کو فروغ دینا ہے۔

مسجد کا ڈیزائن ایک دائرے کے اندر مرکوز ہے جو خانہ کعبہ کی طرف مائل ہوسکتا ہے۔ یہ ڈیزائن رمضان کے مقدس مہینے کے آغاز پر نماز جمعہ اور نماز تراویح کے دوران نمازیوں کے لیے زیادہ جگہ فراہم کرے گا۔مسجد کے داخلی دروازوں اور بیرونی پہلوں کا ڈیزائن آرکیٹیکچرل شناخت کی عکاسی کرتے ہوئے قدرتی روشنی کو اندر آنے کی اجازت دیتا ہے۔عرب ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہ مختلف اسٹیک ہولڈرز جیسے حکومت، کاروبار اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے تعاون کو بھی اجاگر کرتا ہے جنہوں نے سعودی عرب کو تکنیکی ترقی کے مرکز کے طور پر مضبوط کرنے والی ایک مشہور عمارت کی تعمیر کے لیے مل کر کام کیا۔ملک کو امید ہے کہ نیوم پروجیکٹ کے ذریعے بھی ان خصوصیات کا مظاہرہ کیا جائے گا۔