پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے اجلاس میں ڈالر کی قدر میں اضافہ زیر بحث آگیا۔
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ڈالر کی قدر پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی قدر کو بزور طاقت نیچے لایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسمگلنگ کنٹرول کرکے ڈالر کو 288 روپے پر لایا گیا، پوچھتا ہوں کیا ڈالر کو بزور طاقت نیچے رکھا جاسکتا ہے؟
جے یو آئی سینیٹر نے مزید کہا کہ آپ ڈالر کو اس طریقے سے اگر 200 پر بھی لے آئیں تو یہ عمل مصنوعی ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ افسوس ہے کہ صرف ایک سال میں ڈالر 172 روپے سے 335 روپے پر گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک کے ڈالر ریٹ میں 35 سے 40 روپے کا فرق آگیا ہے۔
اس پر ن لیگی سینیٹر ڈاکٹر افنان اللّٰہ نے کہا کہ ڈالر 2018 میں 110 روپے کا تھا، تبدیلی آئی تو ڈالر 184 روپے تک پہنچ گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی حکومت میں ملک دیوالیہ ہورہا تھا، پوچھتا ہوں کہ کون لیڈر ہے جو ملک کو دیوالیہ کرنے کی مہم چلاتا ہے۔
افنان اللّٰہ کی تقریر کے دوران تحریک انصاف کے سینیٹرز نے احتجاج کیا۔
دوران اجلاس بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ذمے دار ہم سب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت اور فوجی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جنہوں نے ایک ہوکر ڈالر کی قیمت کو کم کیا۔
بی اے پی سینیٹرنے یہ بھی کہا کہ ہم دن کے اجالےمیں ملنے والے ہیں رات کے اندھیرے میں نہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ فارن کرنسی کا ڈیمانڈ سپلائی پر انحصار ہے، نگراں حکومت آنے کے بعد ڈالر پر دباؤ آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انتظامی اقدامات کی وجہ سے روپے میں استحکام آیا، حوالہ ہنڈی پر قابو پایا گیا، اسٹیٹ بینک اہم اصلاحات کی طرف جا رہا ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) معاہدے کے بعد قسط آئے گی تو روپےکی قدر میں بہتری آئے گی۔