جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دینے کا مطالبہ کردیا۔
اسلام آباد میں غیر ملکی میڈیا نمائندگان سے ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مسلم اُمّہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ایسے نہیں کھڑی جیسے مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین اہل فلسطین کا ہے اور رہے گا، اسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا، اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جائے۔
جے یو آئی سربراہ نے مزید کہا کہ قضیہ فلسطین کے براہ راست فریق فلسطینی ہیں، جن کے بغیر کوئی حل ممکن نہیں، اسرائیل اور فلسطینی حالت جنگ میں ہیں، جنگ میں کوئی بھی اقدام کیا جاسکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکا، برطانیہ فلسطین میں براہ راست اپنی فوجیں لے آیا ہے، حماس کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ براہ راست غزہ پر حملے کیےجارہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ آج انسانیت کا قتل ہورہا ہے، بچوں بوڑھوں اور خواتین کو قتل کیا جا رہا ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب بکھر گیا، دنیا کو ایک اور زاویہ سے سوچنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کا اوّل روز سے مؤقف فلسطینیوں کی حمایت کا رہا ہے، اسرائیلی اس خطے میں فرعون کے جانشین ہیں، موسیٰ کے جانشین فلسطینی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ بند کمروں میں فیصلے کرنے ہیں تو پھر عوام کی کوئی حیثیت نہیں، ہم نے مطالبہ کیا کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلایا جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سعودی عرب نے اجلاس طلب کیا ان کا شکر گذار ہوں، فلسطینی قیادت کا بھی مطالبہ تھا کہ او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ حماس کے نمائندوں کو بھی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جائے، اُن کے بغیر یہ عمل نامکمل ہے۔
جے یو آئی سربراہ نے کہا کہ انڈین میڈیا پر تعجب ہے کہ ان کو اتنی تکلیف کیوں ہے، اپنی سرزمین حاصل کرنے کی جدوجہد دہشت گردی ہے تو گاندھی جی کی جدوجہد کو کیا نام دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ حق فلسطین کو نہیں دیں گے جن کے زمین پر قبضہ ہے؟ ہم جو حق اپنے لئےجائز سمجھتے ہیں وہ فلسطینیوں، افغانوں کےلئے بھی جائز سمجھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں جو موقف اختیار کیا اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ہم سیاسی لوگ ہیں جو موقف فلسطین کے حوالے سے الیکشن سے پہلے ہے وہی الیکشن کے بعد بھی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے قائداعظم کا جو موقف قیام پاکستان سے پہلے تھا وہی موقف اب بھی ہے، بانی پاکستان نے اقوام متحدہ کی تجویز کو مسترد کیا۔
جے یو آئی سربراہ نےکہا کہ قائداعظم نے امریکی صدر کو خط لکھا کہ فلسطین کو دو ریاستی تصور کے ساتھ قبول نہیں کرسکتے، نگراں وزیر اعظم نے جو دو ریاستی تصور پیش کیا وہ قائد اعظم کے تصور کی نفی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ فلسطین نے پاکستان کے موقف کو جراتمندانہ کہا اور کہا کہ وہ قیادت کرے، پاکستان نے اس وقت بھی فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی اور قیام پاکستان کے بعد بھی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسلامی دنیا کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں مزاحمتی تحریک کے ختم ہونے کا تصور ختم ہو گیا، اگر امریکی وزیر خارجہ ان کی حمایت کو کھلم کھلا کرتا ہے تو کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم ان کی حمایت کریں۔