90 روز میں عام انتخابات کیس کا تحریری فیصلہ جاری

90 روز میں عام انتخابات کیس کا تحریری فیصلہ جاری

سپریم کورٹ نے 90 روز میں عام انتخابات کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ تحریر کیا ہے جو 10 صفحات پر مشتمل ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت، الیکشن کمیشن کے درمیان 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کروانے پر اتفاق ہوا، قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری 2024 کو کروانے کا حکم جاری کیا گیا۔

قومی اسمبلی 9 اگست 2023 کو وزیراعظم کی ایڈوائس پر تحلیل ہوئی، وزرائے اعلیٰ کی ایڈوائس پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی گئیں، صدر کو چاہیے تھا 90 دن سے پہلے انتخابات کروانے کی تاریخ کا اعلان کرتے، الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ اور پروگرام کا نوٹیفکیشن دینا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عام انتخابات مقررہ مدت میں ساتویں مردم شماری کے باعث نہ ہوئے، مردم شماری کے بعد مشترکہ مفادات کونسل نے آئین کے آرٹیکل 154 اے کے  تحت منظوری دی، مشترکہ مفادات کونسل نے 4 سال پہلے چھٹی مردم شماری کی منظوری 12اپریل 2021 کو دی تھی، مشترکہ مفادات کونسل نے ہدایت کی تھی اگلی مردم شماری شروع کی جائے، مشترکہ مفادات کونسل نے 12 اپریل 2021 کو جدید تقاضوں کے مطابق مردم شماری مکمل کرنے کا کہا، 5 اگست 2023 کو مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق مردم شماری کی منظوری دی گئی۔

آئین کے آرٹیکل 51 فائیو کے تحت چھٹی مردم شماری کے تحت عام انتخابات نہیں ہو سکتے تھے، عام انتخابات کے لیے ساتویں مردم شماری آئینی تقاضا تھا، مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں کی گئیں، آئین کا آرٹیکل 220 بی الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت پارلیمنٹ کو حلقہ بندیوں کا قانون بنانے کا اختیار دیتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 224 ٹو 90 دن میں عام انتخابات کرانے کا کہتا ہے، مشترکہ مفادات کونسل نے چھٹی مردم شماری کی منظوری میں 4 سال لگائے، چار سال لگنے کی وجہ سے ساتویں مردم شماری میں تاخیر ہوئی۔

تحریری فیصلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے مطابق 30 نومبر کو حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہوجائے گا، حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن پروگرام کا اعلان کیا جائے گا، الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن پروگرام کے لیے 54 دن درکار ہیں۔

سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر کا 3 اپریل کو اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ غیر آئینی تھا، وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانا آئین میں درج ہے، آئین میں واضح ہے ممبران اسمبلی کی اکثریت تحریک عدم اعتماد منظور کر سکتی ہے، تحریک آنے کے بعد وزیر اعظم اسمبلی ختم کرنے کا حکم نہیں دے سکتے، 3 اپریل کو اسمبلی تحلیل کرنے سے ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے سیاسی بحران کے پیش نظر از خود نوٹس لیا، سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا، تحریک عدم اعتماد کیخلاف کیس میں ایک جج نے لکھا صدر کا اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے، معزز جج نے صدر مملکت کیخلاف غداری کی کارروائی کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت میڈیا کے کردار کو سراہتی ہے، آئین کا آرٹیکل 19 میڈیا کو آزادی فراہم کرتا ہے، کچھ لوگوں نے اس آزادی کو غلط معلومات اور جھوٹا بیانیہ پھیلانے کا لائسنس سمجھ لیا ہے، جمہوریت کو کمزور کرنے کےلیے میڈیا پر جھوٹا بیانیہ بنایا جاتا ہے، پیمرا کا قانون ایسے مواد کی نشریات سے روکتا ہے جو لوگوں کو اکسائے، سپریم کورٹ ان صحافیوں کو سراہتی ہے جو دیانتداری سے پیشہ وارانہ ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں انتخابات سے متعلق درخواستوں میں صدر کو فریق بنایا گیا، انتخابات سے متعلق ایک درخواست میں صدر مملکت کی ٹوئٹ کا ذکر ہے، اگر صدر کا انتخابات کے بارے میں سوشل میڈیا پر پیغام درست ہے تو اس سے سوالات جنم لیتے ہیں، اگر پیغام صدر مملکت کا ہی ہے تو کیا ملک کو سوشل میڈیا سے چلایا جا سکتا ہے؟

فیصلے کے مطابق عدالت نے تمام وکلاء پر واضح کیا آئینی تشریح کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت لارجر بینچ تشکیل دینا ہوگا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن، صدر کے درمیان پیدا تعطل 13 ستمبر کو ختم ہوا جب صدر نےخط لکھا، تمام وکلاء نے یک زبان کہا کہ ہم الیکشن چاہتے ہیں، تین رکنی بینچ پر کوئی اعتراض نہیں۔

تفصیلی فیصلے کے متن کے مطابق آگاہ کیا گیا الیکشن کمیشن نے صدر کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا، صدر کے خط اور الیکشن کمیشن کے مؤقف سے عدالت مشکل میں آگئی، آئین اور قانون میں عدالت کے پاس الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں، صدر نے آرٹیکل 186 کے تحت عدالت سے رجوع نہیں کیا، صدر اور الیکشن کمیشن سمیت سب کو وہی کرنا چاہیے جو آئین کی منشا ہے، آئین پر عمل کرنا کوئی آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی ادارہ دوسرے کی آئینی حدود میں مداخلت کرے تو نتائج سنگین ہوں گے، صدر اور الیکشن کمیشن کا تنازع غیر ضروری طور پر سپریم کورٹ لایا گیا، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے امور میں مداخلت نہیں کی، پورا ملک انتخابات کی تاریخ کیلئے تشویش میں مبتلا تھا، کچھ لوگوں کو خدشہ تھا شاید انتخابات ہوں گے ہی نہیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان تاریخ کے تعین میں سہولت کاری کی، آئینی عہدہ جتنا بڑا ہوگا ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی، آئین پر عمل کرنا ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔ صدر، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ارکان آئین کے تحت حلف کے پابند ہیں۔

فیصلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان کو پچاس سال ہوچکے ہیں، کسی آئینی ادارے یا عہدیدار کے پاس آئین سےآشنا نہ ہونے کا کوئی عذر نہیں، آج سے 15 سال پہلے تین نومبر کو آئین پر شب خون مارا گیا تھا، آئین پر شب خون مارنے کے ہمیشہ دور رس اثرات ہوئے ہیں، آئین پر شب خون مارنے سے سیکھنا ہوگا، عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر اس کے منفی اثرات پڑے، وقت آگیا ہے عدالتیں غیرضروری طور پر ایسے تنازعات کا حصہ نہ بنیں۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عوام کا حق ہے انتخابات ہوں اور عدالت کو الیکشن یقینی بنانے کا اعزاز حاصل ہوا، انتخابات کی مقررہ تاریخ 8 فروری پر تمام فریقین متفق ہیں، صدر سے اتفاق کے بعد انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا، نوٹیفکیشن کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہوں گے، ایڈووکیٹ جنرلز کے مطابق کسی صوبائی حکومت کو انتخابات کی تاریخ پر اعتراض نہیں، وفاقی و صوبائی حکومتیں یقین بنائیں انتخابات کا عمل 8 فروری کو بغیر رکاوٹ مکمل ہو۔

سپریم کورٹ نے 90 روز میں انتخابات کےلیے دائر درخواستیں نمٹا دیں۔