سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس کی سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ مسٹر ابصار عالم کہاں ہیں؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ بتایا گیا ہے کہ ابصار عام راستے میں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم نے اپنے بیان میں وزارتِ دفاع کے ملازم پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ ان الزامات کے بعد بھی نظرِ ثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابصار عالم کے لگائے الزامات دیکھے ہیں، ہم نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ابصار عالم فیض آباد دھرنے کے وقت کیا تھے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فیض آباد دھرنے کے وقت ابصار عالم چیئرمین پیمرا تھے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ بہتر ہو گا پہلے فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس میں دی گئی ہدایات پڑھ دیں۔
عدالت میں چیف جسٹس نے پوچھا کہ وفاقی حکومت نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب بنائی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 19 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے کمیٹی تشکیل دی ہے جو تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر رپورٹ دے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ابھی تک کمیٹی نے کوئی کام نہیں کیا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 26 اکتوبر کو کمیٹی کا اجلاس ہوچکا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پر سوالات اٹھا دیے
عدالت میں جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کس قانون کے تحت بنی اور اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی بنا کر صرف رپورٹس آتی رہیں گی، ہوناکچھ نہیں۔
انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ سمیت سب کہہ رہے ہیں فیض آباد دھرنا فیصلہ ٹھیک ہے، حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، کیا کمیٹی نے جو ٹی او آر بنائے ہیں ان میں سب ذمے داران سے حساب لیا جائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پورے ملک کو ایک جماعت نے یرغمال بنائے رکھا، بیرون ملک سے ایک شخص امپورٹ کر کے ملک کو یرغمال بنایا گیا اور وہ واپس لوٹ گیا، حکومت میں تحقیقات کرنے کی قابلیت ہی نہیں ہے۔
’بچے بھی آپ سے بہتر جواب دے سکتے ہیں‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بچوں سے پوچھیں تو وہ بھی آپ سے بہتر جواب دے سکتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا اب ریاستی امور آئین کے مطابق چلائے جارہے ہیں؟
’ہم نے پوچھا تھا دھرنے کا ذمے دار کون تھا‘
چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی کے ٹی او آر سے تو لگتا ہے آپ نے سب کو بری کردیا، دھرنا کیس میں عدالت نے پوری ہسٹری دے دی، ہم نے پوچھا تھا دھرنے کا ذمے دار کون تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے کمیٹی کا ایک بھی ٹی او آر درست نہیں بنایا، حکومت چاہتی ہے سب کو ذمے دار ٹھہرا کر کسی کے خلاف کارروائی نہ ہو، اربوں کا نقصان ہوا مگر حکومت کو پرواہ ہی نہیں۔
’فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے‘
چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی رپورٹ کا کیا ہوگا؟ کیا کمیٹی رپورٹ کابینہ میں پیش ہوگی؟ کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش ہوگی تاکہ کارروائی ہوسکے؟ ہم کمیٹی رپورٹ کا جائزہ نہیں لیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ عدالت آپ کا کام کیوں کرے؟ فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ کمیٹی کا حصہ ہیں وہ کیا کام کریں گے؟ کتنے پل گرائے گئے؟ کتنا نقصان ہوا؟ یہ سب کون دیکھے گا؟
عدالت میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے کمیٹی صرف تحقیقات کے لیے بنائی ہے، کمیٹی اپنی رپورٹ کے ساتھ سفارشات دے گی۔
’ایک کاغذ کے ٹکڑے سے ملک نہیں چلایا جاسکتا‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے، ایک کاغذ کے ٹکڑے سے ملک نہیں چلایا جاسکتا، ہمیں بتائیں کون سے رولز آف بزنس اور کس قانون کے تحت کمیٹی بنائی گئی،۔
’جس طرح حکومت معاملات چلانا چاہ رہی ہے ایسے نہیں ہوگا‘
چیف جسٹس نے کہا کہ جس طرح حکومت معاملات چلانا چاہ رہی ہے ایسے نہیں ہوگا، عدالت یہ قرار دے گی کہ حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس میں کچھ نہیں کیا، ہم جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ 6 فروری 2019ء سے آج تک فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا، اس طرح تو یہاں ہر کوئی کہے گا میں جو بھی کروں مجھے کوئی پوچھ نہیں سکتا۔