سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس سماعت کے لیے مقرر

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ یکم نومبر کو سماعت کرے گا،رجسٹرار سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ یکم نومبر کو سماعت کرے گا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے۔ عدالت نے گزشتہ سماعت پر تمام فریقین سے تحریری جواب طلب کیا تھا۔
پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، الیکشن کمیشن، آئی بی سمیت دیگر نے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کر رکھی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس کی 28 ستمبر کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر تے ہوئے فریقین کو فیض آباد دھرنے پر حقائق پیش کرنے کا ایک اور موقع دیا تھا ۔فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی 28 ستمبر کی سماعت کا تحریری حکم نامہ 4 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ تمام فریقین کو فیض آباد دھرنے سے متعلق حقائق پیش کرنے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں، فریقین کیس سے متعلق حقائق بیانِ حلفی کے ذریعے جمع کرا سکتے ہیں، کیس میں تحریری جوابات 27 اکتوبر تک جمع کرائے جائیں، کیس کی سماعت یکم نومبر کو ہو گی۔حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارتِ دفاع اپنی نظر ثانی کی درخواست پر مزید کارروائی نہیں چاہتا، آئی بی، پیمرا، پی ٹی آئی نے بھی متفرق درخواست کے ذریعے نظرِ ثانی کی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی، درخواست گزار شیخ رشید نے نیا وکیل کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی، درخواست گزار اعجاز الحق نے فیصلے کے پیراگراف نمبر 4 پر اعتراض اٹھایا۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ دورانِ سماعت کیس سے متعلق 4 سوالات اٹھائے گئے، یہ سوال اٹھایا گیا کہ طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرِ ثانی کیس کیوں سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا تھا دوسرا سوال اٹھایا گیا کہ نظرِ ثانی درخواستیں واپس لینے کے لیے ایک ساتھ متعدد متفرق درخواستیں کیوں دائر کی گئیں تیسرا سوال تھا کہ کیا آئینی و قانونی اداروں کا نظرِ ثانی درخواستیں دائر کرنے کا فیصلہ آزادانہ ہی چوتھا سوال یہ تھا کہ کیا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عمل درآمد ہو گیا تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ کچھ درخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے، عدالت نے مشاہدہ کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ کیا ہوا، ان لوگوں کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں عدالت نے ان کے نکتہ نظر کو مدِ نظر نہیں رکھا، فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے پیرا گراف 17 کے تحت یہ موقف عدالت کے لیے حیران کن ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی متاثرہ فریق آگے بڑھ کر تحریری طور پر اپنا مقف پیش کر سکتا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا ایک محدود وقت کے لیے تھا اور اس کے دائرہ اختیار کو وسیع نہیں کیا جانا چاہیے۔