فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کو کالعدم قراردینا خلاف قانون ہے

قانونی ماہرین کے مطابق یہ ملکی دفاع وسالمیت کیخلاف ماضی میں دئے گئے فیصلوں کے بھی برعکس ہے، چئیرمین پی ٹی آئی کے دور میں بھی سویلینز کے مقدمات کی سماعت ملٹری کورٹس میں ہوتی رہی ہے، فردوس عاشق اعوان

لاہور(نیوز ڈیسک) استحکام پاکستان پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کو کالعدم قراردینا خلاف قانون ہے، قانونی ماہرین کے مطابق یہ ملکی دفاع وسالمیت کیخلاف ماضی میں دئے گئے فیصلوں کے بھی برعکس ہے۔ انہوں نے ایکس پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ مختلف ماہرین قانون کی رائے میں سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا حالیہ فیصلہ خلاف قانون ہے جو ملکی دفاع و سالمیت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے ماضی میں دئے گئے فیصلوں کے بھی برعکس ہے۔
اس سے قبل 2015 میں بھی سپریم کورٹ کے گیارہ ججوں پر مشتمل بنچ نے اس فیصلے کی توثیق کی ہے کہ ملٹری کورٹس میں سویلینز کے مقدمات کی سماعت کی جاسکتی ہے تاہم اس میں جرائم کی نوعیت کو مدنظر رکھا جائے گا۔
اس کے علاوہ 2017 میں بھی سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل لارجر بینچ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے جب کہ چئیرمین پی ٹی آئی کے دور میں بھی سویلینز کے مقدمات کی سماعت ملٹری کورٹس میں ہوتی رہی ہے۔

آئنی ماہرین کے مطابق اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اپیل کی جا سکتی ہے جس میں عدالت نیا فیصلہ جاری کرسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان عدالتوں میں شاید آزادانہ سماعت ممکن نہیں جو کہ غلط ہے۔ ماہرین کی رائے میں اس فیصلے کے خلاف نئی پٹیشن دائر کی جاسکتی ہے جس میں یہ فیصلہ تبدیل کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے قانونی نکات کی تشریح کرنے کی بجائے قانون کے خلاف فیصلہ صادر کیا ہے۔
یاد رہے سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل غیر آئینی قرار دے دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف فیصلہ محفوظ سنا دیا۔جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہیں۔فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی گزشتہ سماعت 3 اگست کو ہوئی تھی۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دے دیا۔ فوج کی تحویل میں موجود ملزمان کی درخواستیں خلاف قواعد ہونے پر خارج کر دی گئیں۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن 59 کی ذیلی شق ایک کالعدم قرار دی گئی۔ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی دفعہ 2D(1) کالعدم قرار دے دی گئی۔ سپریم کورٹ نے ملٹری ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے 9 مئی کے ملزموں کا عام عدالتوں میں ٹرائل کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ نو اور دس مئی کے تمام ملزمان کا ٹرائل سول عدالتوں میں ہوگا۔ملٹری کورٹس میں سویلینز کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مقدمات عام عدالتوں میں چلائیں جائیں گے۔سپریم کورٹ نے فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کی درخواستوں کے خلاف درخواستیں منظور کر لیں۔