جنرل باجوہ یا فیض حمید کا احتساب کیوں نہیں ہونا چاہیئے؟

جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن کیلئے ووٹ نہیں دیا تھا، صرف قانون سازی کرکے وزیراعظم کو ایکسٹینشن کا اختیار دیا تھا، سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا کہ ایکسٹینشن کا قانون نہیں ہے، قانون سازی کے بعد توسیع دینا نہ دینا وزیراعظم کا اختیار تھا۔سابق وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سابق وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ یا فیض حمید کا احتساب کیوں نہیں ہونا چاہیئے؟ ہم جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن کیلئے ووٹ نہیں دیا تھا، ہم نے قانون سازی کے ذریعے وزیراعظم کو ایکسٹینشن کا اختیار دیا تھا، سپریم کورٹ نے کہا تھا قانون نہیں ہے، توسیع دینا نہ دینا وزیراعظم کی صوبدید تھی۔
انہوں نے نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں کل سے شہبازشریف سے متعلق تجزیے ہورہے ہیں اس میں کوئی بات درست نہیں ہے،نوازشریف کی واپسی سے متعلق جو تجسس پھیلایا جارہا وہ درست نہیں، 21اکتوبر کو نوازشریف واپس آئیں گے،نوازشریف کا بیانیہ نیا نہیں، 2018 میں بھی بیانیہ یہی تھا، شہبازشریف کا مشورہ بیانیئے سے متعلق یا واپسی سے متعلق نہیں ہے، اور بہت ساری باتیں ہوسکتی ہیں۔
نوازشریف اور شہبازشریف کے درمیان مشاورت کا سلسلہ اگلے دنوں میں بھی جاری رہے گا، لندن آنا جانا لگا رہے گا۔ فیصل واوڈا کو ہم سے جتنا دکھ پہنچا ہے ہوسکتا ہے کہ گالیاں دینا شروع کردیں، ان کو ذاتی طور پر بڑی تکلیف پہنچی ہے، اگر فیصل واوڈا کو شہبازشریف حکومت سے کوئی تکلیف پہہنچی ہے تو انہیں اس طرح کے گھٹیا جملے بول کر بدلہ نہیں لینا چاہیئے۔
جہانگیرترین کی اپنی سوچ ہے، نوازشریف نے پہلی بار نام لے کر بات نہیں کی، نوازشریف نے گوجرانوالہ جلسے میں بھی نام لے کر بات کی تھی، نوازشریف کی شروع دن سے سوچ ہے کہ اداروں کو حدود میں رہنا چاہیے، غیرآئینی مداخلت کی وجہ سے ہم یہاں پہنچے ہیں۔نوازشریف نے 18ستمبر کو کوئی انوکھی یا الگ بات نہیں کردی۔جنرل باجوہ یا فیض حمید کا احتساب کیوں نہیں ہونا چاہیئے؟یہ نہیں کہتے کہ عدالت میں منصف بن کر ہم فیصلہ کریں گے، جوڈیشل سسٹم کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، جنرل باجوہ اپنے بیانات میں کہتے رہے کہ ہم حکومتوں کو گرانے اور انجینئرنگ میں ملوث رہے۔
بنیادی طور پر یہ بات غلط ہے کہ ہم نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن میں ووٹ نہیں دیا، ایکسٹینشن 22اگست کو ہوئی ہے، جب وزیراعظم نے امریکا جانا تھا، لیکن ایکسٹینشن کا وزیراعظم نے خود نوٹیفکیشن جاری کردیا، کسی جماعت نے اعتراض نہیں کیا تھا، قانون سازی یہ تھی کہ وزیراعظم کو ایکسٹینشن دینے کا اختیار ہے، جو پہلے بھی حاصل تھا،قانون سازی کے ذریعے وزیراعظم کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار دیا گیا تھا، ہم قانون سازی کیلئے ووٹ دیا تھا، ہم نے ایکسٹینشن پر دستخط نہیں کئے، وزیراعظم کا اختیار تھا وہ ایکسٹینشن دے یا نہیں یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے۔ملک کو موجودہ صورتحال میں دھکیلنے والے بابا رحمتے سمیت تمام ذمہ دران کا احتساب ہونا چاہئے۔