اسلام آباد (نیوز ڈیسک) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان پوسٹ آفس ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کی ہے کہ ریٹائرڈ ملازم کو 1.35 ملین روپے ادا کئے جائیں، پوسٹ ماسٹر جنرل پنجاب، لاہور کی جانب سے تاریخ پیدائش میں غلطی کی وجہ سے سابق ملازم کی پنشن کی مراعات سے غلط طریقہ سے رقم کاٹ لی گئی۔ ایوان صدر پریس ونگ کی جانب سے بدھ کو جاری اعلامیہ کے مطابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ملازم مجاز اتھارٹی کے حکم پر ریٹائرمنٹ کے بعد مزید چار سال اپنے محکمے میں خدمات انجام دیتا رہا اور اس مدت کے لیے تنخواہ وصول کرنے کا پختہ یقین رکھتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملازم کو پنشن کے فوائد سے محروم کرنا اور اس کے فرائض کی انجام دہی میں ادا کی گئی تنخواہ میں کٹوتی کرنا غیر قانونی اور بدانتظامی ہے۔
صدر مملکت نے یہ ریمارکس محمد یوسف (شکایت کنندہ) کی جانب سے وفاقی محتسب کے فیصلہ کے خلاف دائر کی گئی درخواست کو قبول کرتے ہوئے دیئے۔ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں کہا کہ پاکستان پوسٹ نے ان کے پنشنری فوائد سے رقم کاٹ لی ہے۔
شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ اس نے ایجنسی میں 38 سال خدمات انجام دیں اور وہ 2016 میں ریٹائر ہوئے لیکن ان کے محکمہ نے ان کی تاریخ پیدائش غلط درج کی جس کی وجہ سے ان کی ریٹائرمنٹ کا سال 2012 میں تبدیل کر دیا گیا جس کی وجہ سے 1.35 ملین روپے کی رقم ان کی پنشنری مراعات سے چار سال کی تنخواہ کے بدلے بلا جواز کاٹ لی گئی۔ بعد ازاں اس حوالہ سے وفاق محتسب سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے پاکستان پوسٹ کے حق میں احکامات جاری کر دیئے۔
اس کے بعد شکایت کنندہ نے وفاق محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر مملکت کے سامنے اس معاملہ کو اٹھاتے ہوئے اپیل کی۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے شکایت کنندہ کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ پاکستان پوسٹ نے شکایت کنندہ کو مورخہ 04.06.2015 کے خط کے ذریعے شکایت کنندہ کو آگاہ کیا کہ اس کی ریٹائرمنٹ 05.05.2016 سے لاگو ہوگی اور شکایت کنندہ نے ایجنسی کے مذکورہ حکم کی بنیاد پر اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ فیڈرل سروس ٹربیونل اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ذریعے ملازم کی ریٹائرمنٹ کی درست تاریخ کا معاملہ طے پا گیا تھا تاہم کسی کارکن کو اس کی خدمات کے عوض تنخواہ سے محروم کرنے کا معاملہ تاحال حل طلب ہے۔ صدر مملکت نے اپنے حکم میں نشاندہی کی کہ شکایت کنندہ کو حکم کے مطابق ڈیوٹی کرنے کے لئے تنخواہ ادا کی گئی تھی اور مذکورہ مدت کے لیے تنخواہ وصول کرنا اس کا حقیقی یقین تھا۔
دوسرے الفاظ میں وہ غلطی پر نہیں تھا کیونکہ اس نے مجاز اتھارٹی کے حکم پر عمل کیا تھا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے انجینئر ان چیف برانچ میں وزارت دفاع وغیرہ بمقابلہ جلال الدین (PLD 1992 SC 207) کیس میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جس میں مدعا علیہ جلال الدین کو غیر قانونی طور اعلی عہدہ پر ترقی دی گئی تھی اور اس وقت تک تنخواہیں ادا کی گئیں جب تک کہ پروموشن غیر قانونی ثابت ہو گئی اور پروموشن آرڈر منسوخ کر دیا گیا۔
محکمہ نے ان کے اعلیٰ عہدے پر فائز رہنے کے دوران ادا کی گئی تنخواہوں کی وصولی کی کارروائی شروع کر دی تھی۔ انہوں نے فیڈرل سروس ٹربیونل میں اپیل دائر کی جسے منظور کر لیا گیا۔ اپیل پر سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے یہ قرار دیا گیا تھا کہ اگرچہ اتھارٹی مجاز ہے کہ غیر قانونی حکم واپس لے، جواب دہندہ نے تنخواہ کی۔مد رقم حاصل کی تھی کیونکہ اس نے فرائض سرانجام دیئے تھے تاہم محکمہ اس مدت کے دوران لی گئی رقم کی وصولی کا حقدار نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ “جہاں تک زیر بحث رقم کی وصولی کا تعلق ہے، لوکس پوئنیٹینشیا(Locus Poenitentiae) کا اصول لاگو ہو گا اور اپیل کنندگان رقم کی وصولی کے حقدار نہیں ہیں۔ صدر مملکت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ وفاق محتسب نے غلطی سے ایجنسی کو شکایت کنندہ سے زائد ادا کی گئی رقم کی وصولی کا جواز فراہم کیا تھا اور وہ لوکس پوئنیٹینشیا کے اصول کی تعریف کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے ادارہ کو وصول کی گئی رقم کی وصولی سے روک دیا گیا تھا۔
صدر مملکت نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ادا کرنے کا حکم دیا تھا اور کوئی قانون محنت کے وقار کے اس جذبے کو زیر نہیں کر سکتا۔ “شکایت کنندہ کو پینشنری فوائد سے محروم کرنا اور پاکستان پوسٹ کی جانب سے ڈیوٹی کی ادائیگی میں ادا کی گئی تنخواہ کی کٹوتی غیر قانونی ہے”۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا اور پاکستان پوسٹ کو ہدایت کی کہ وصول شدہ رقم شکایت کنندہ کو ادا کرے۔