پارلیمنٹ ہی اپنے بنائے قوانین میں ترمیم یا تبدیلی کرسکتی ہے، اکثریتی فیصلہ اختیارات کے ٹرائیکوٹومی کے اصول کو تسلیم کرنے ناکام رہا، چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتا ہوں، تحریری فیصلے کے ساتھ جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) نیب ترامیم کیس کے فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ اکثریتی فیصلہ میری عاجزانہ رائے میں آئینی اسکیم کے خلاف ہے،پارلیمنٹ ہی اپنے بنائے قوانین میں ترمیم یا تبدیلی کرسکتی ہے، اکثریتی فیصلہ اختیارات کے ٹرائیکوٹومی کے اصول کو تسلیم کرنے ناکام رہا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 58 صفحات پر مشتمل فیصلہ خود تحریر کیا۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ نیب ترمیمی سیکشن 3اور 4سے متعلق ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔عوامی عہدوں پر نیب قانون کے تحت 50 کروڑ کی حد ترامیم کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ اکثریتی فیصلہ میری عاجزانہ رائے میں آئینی اسکیم کے خلاف ہے، ریاست اپنی طاقت اور اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
اکثریتی فیصلہ اختیارات کے ٹرائیکوٹومی کے اصول کو تسلیم کرنے ناکام رہا، نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتا ہوں، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ ہی اپنے بنائے قوانین میں ترمیم یا تبدیلی کرسکتی ہے، کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا، گزشتہ رات مجھے اکثریتی فیصلے سے آگاہ کیا گیا، وقت کی کمی کی وجہ سے فی الحال تفصیلی وجوہات بیان نہیں کررہا۔
یاد رہے سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ نے چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے اکثریتی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ لیڈیز اینڈ جینٹلمین دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اکثریتی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی متعدد شقوں کو آئین کے برعکس قرار دے دیا۔ مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کاروائی کرے۔عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال ہو گئے۔آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی۔سپریم کورٹ نے پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دے دیں۔
احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دے دئیے۔ نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم دے دیا۔تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کرنے کا حکم دے دیا۔خیال رہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ 05 ستمبر2023ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست دائر کی گئی تھی،جس پر دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سپریم کورٹ میں کیس سے متعلق 50 سے زائد سماعتیں ہوئیں۔ 12 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف دائر درخواست 16 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔
رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں تاہم صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔ نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔
مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔