عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کن شرائط پر کس نوعیت کا معاہدہ ہوا ہے، بجلی کے بلوں سے تمام ٹیکس ختم کئے جائیں،ورنہ دمادم مست قلندر کرنے عوام سڑکوں پر نکلتی رہے گی۔ سینیٹر آصف کرمانی
لاہور (نیوز ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر آصف کرمانی نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی تمام تر تفصیلات سینیٹ میں پیش کی جائیں، عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کن شرائط پر کس نوعیت کا معاہدہ ہوا ہے، بجلی کے بلوں سے تمام ٹیکس ختم کئے جائیں،ورنہ دمادم مست قلندر کرنے عوام سڑکوں پر نکلتی رہے گی۔
انہوں نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی تمام تر تفصیلات سینیٹ آف پاکستان کے سامنے رکھی جائیں تاکہ عوام کو بھی معلوم ھو سکے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کس نوعیت کے معاہدے کن شرائط پر کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے بلوں سے تمام ٹیکس ختم کئے جائیں- صرف استعمال شدہ بجلی کی قیمت وصول کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ کے بلوں میں کوئی ٹیکس یا خفیہ بقایا جات شامل نہیں کئے جائیں گی ورنہ عوام سڑکوں پر نکلتی رہے گی اور دمادم مست قلندر ھوتا رہے گا۔
اکتوبر سے موسم خوشگوار ھونا شروع ھو جاتا ھے ، بجلی کی طلب کم ھو جاتی ھے ، شاید اسی نکتے کو سامنے رکھتے ھوئے نیپرا نے اگست میں بجلی کے بھاری بل بھجوانے اور عوام کا گلا کاٹنے کی سازش کی جو اب حکومت کے گلے پڑ رہی ھے – اگر ملک گیر احتجاج نہ ھوتا تو ستمبر بھی ستمگر بن کر نازل ھوتا۔ سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات سے پہلے قابل عمل معاشی روڈ میپ، منشور دینا ھو گا ورنہ الیکشنوں میں آزاد امیدواروں کی لاٹری نکل سکتی ھے۔
عوام اس مرتبہ مہنگائی کے باعث انتہائی غصے اور الرٹ موڈ میں نظر آتے ہیں! دوسری جانب سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ دس فیصد صارفین بھی بجلی کے بل ادا نہیں کرتے ہیں۔ رہنما مسلم لیگ ن مفتاح اسماعیل نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ مئی جون میں بجلی کی طلب زیادہ ہوتی ہے، مئی جون میں بجلی کی زیادہ لوڈشیڈنگ نہیں کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مئی جون میں مہنگے فیول پر بجلی بنا کر فراہم کی گئی۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ گزشتہ حکومت میں فیصلہ ہوا تھا کہ مارکیٹیں جلد بند کی جائیں گی، پرویز الہی وزیرِاعلی بنے تو انھوں نے مارکیٹوں سے متعلق تعاون چھوڑ دیا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ دکانداروں کی لابی ہوتی ہے، مارکیٹیں جلد بند کرانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔