“پارلیمنٹ تحلیل ہونے کے بعد صدر منظوری نہ دے تو بل ختم ہوجاتا ہے”

صدر کے مؤقف کے بعد سیکرٹری کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں، سیکرٹری سے زیادہ صدر مملکت کا مؤقف اہم ہے، حامد خان کی گفتگو

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) تحریک انصاف کے سینئر رہنما حامد خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ تحلیل ہونے کے بعد صدر منظوری نہ دے تو بل ختم ہوجاتا ہے۔ انہوں نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے مؤقف کے بعد سیکرٹری کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں، سیکرٹری سے زیادہ صدر مملکت کا مؤقف اہم ہے۔
حامد خان نے کہا کہ صدرِ مملکت نے معاملہ اپنے عملے پر چھوڑ دیا تھا، انہوں نے قانون پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ حامد خان کے مطابق قانون صدرِ مملکت کے دستخط کے بعد نافذ ہوتا ہے اور دونوں بلز پر صدرِ مملکت کے دستخط ہی نہیں ہیں، اس لئے دونوں بلز قانون نہیں بنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ تحلیل ہونے کے بعد صدر منظوری نہ دے تو بل ختم ہوجاتا ہے، نئی پارلیمنٹ آئے گی تو بل پر دوبارہ غور ہوسکے گا بلز کے تحت گرفتاریوں اور ٹرائل کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ ہونے پر ہی کسی کا ٹرائل ہوسکے گا، یہ معاملہ آخر میں سپریم کورٹ میں ہی جانا ہے۔
ادھر پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئیر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ صدر مملکت ٹویٹ نہ کرتے تو بہتر ہوتا، انہیں معاملہ قانونی طریقے سے اٹھانا چاہئے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عارف علوی نئے صدر کے آنے تک عہدے پر رہ سکتے ہیں، صدر مملکت کی مدت میں توسیع کی نظیر نہیں ملتی۔ ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی پر بحث نہیں ہوئی، بہت سے بلز عجلت میں پاس کرائے گئے، بلز کی منظوری کیلئے کوئی دباؤ یا مخالفت نظر نہیں آئی۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انتخابات 90 دن میں نہیں ہوسکتے، الیکشن کمیشن نے کہہ دیا ہے کہ ساڑھے 4 ماہ درکار ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ صدر مملکت کسی پارٹی کی نمائندگی نہیں کر رہے، دیکھنا ہوگا کہ صدر مملکت ردعمل نہ دیں تو کیا ہوگا، بل پر صدر کے ردعمل نہ دینے پر آئین بھی خاموش ہے، صدر مملکت اپنے عملے کو تبدیل کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔