ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے کہ مل کر ملکی معیشت میں کردار ادا کریں: آرمی چیف

اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہمیں کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم مل کر ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان منرل سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان نے تمام اداروں کے ساتھ مل کر سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے قیام کو یقینی بنایا جو کہ تمام شراکت داروں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتا ہے، پاکستان کا پہلا منرل سمٹ پاکستان میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو آسان کاروبار کے نئے اصول وضع کرتا ہے۔

آرمی چیف نے کہا کہ ہم ایسے سرمایہ کار دوست نظام کو یقینی بنائیں گے جس میں آسان شرائط اور غیر ضروری التواء سے بچا جا سکے، ہمارے ملک میں موجود کان کنی کے وسیع تر مواقع ہیں جو کہ مشترکہ کاوشوں سے عمل پذیر لائے جائیں گے، معدنیاتی پراجیکٹس عوام کی ترقی کا زینہ ہیں۔

جنرل عاصم منیر نے کہا کہ اپنے ملک پر نظر تو ڈالیں برف پوش پہاڑوں سے لے کر صحراؤں کی وسعت تک اور ساحلی پٹی سے میدانی علاقوں تک اس سر زمین میں کیا کچھ نہیں ہے، ہماری سرزمین بہت سے معدنیات سے مزین ہے اور اس صلاحیت کو مکمل طریقے سے استعمال میں لانے کیلئے ہم بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دیتے ہیں کہ پاکستان میں چھپے خزانوں کی دریافت میں اپنا کردار ادا کریں۔

اپنے خطاب کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے قران کریم کے سورہ بقرہ کی آیت 155 اور 159 کی تلاوت کی جس کا ترجمہ ہے “اور ہم ضرور تمہیں خوف اور بھوک اور جان و مال و ثمرات سے آزمائیں گے، اُن پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کی طرف سے ہیں اور ہمیں اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے”۔

جنرل عاصم منیر نے مزید کہا ہے کہ اگر ہمارا یہ مشترکہ عزم رہا تو پھر آسمان کی بلندیاں ہماری حد اور اسکی وسعتیں ہماری منتظر ہیں، آرمی چیف نے نے قرآنی حوالہ دے کر واضح کیا کہ اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد آپ کرتے ہیں، انہوں نے بیرک گولڈ کے سی ای او اور پریذیڈنٹ مارک برسٹو اور سعودی مائننگ منسٹر انجینئر خالد بن صالح المدیفر اور دیگر سرمایہ کاروں کا شکریہ ادا کیا۔

خطاب کے آخر میں جنرل عاصم منیر نے علامہ اقبال کا شعر بھی پڑھا:

تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خُودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوہِ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے