متعدد ممالک کا پاکستانی ایئر پورٹس کی آؤٹ سورسنگ میں اظہار دلچسپی

سعودی عرب کا بن لادن گروپ بھی ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کے لیے کوششیں کر رہا ہے

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) چین اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک نے پاکستانی ایئر پورٹس کی آؤٹ سورسنگ میں اظہار دلچسپی کیا ہے۔ سعودی عرب کا بن لادن گروپ بھی ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق خلیجی ملک کی ایک کمپنی کو آؤٹ سورس کرنے کے بعد ایئرپورٹس پر فائیو اسٹار ہوٹلوں سمیت جدید سہولیات فراہم کرنے کا منصوبہ ہے۔
ورلڈ بینک کا ایک ذیلی ادارہ ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کے لیے مالیاتی مشیر کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب کا بن لادن گروپ بھی ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کے لیے کوششیں کر رہا ہے جب کہ قطر کی حکومت نے ہوائی اڈوں کے کارگو سیکٹر کو سنبھالنے میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ خلیجی ملک کی کمپنی ہوائی اڈوں پر فائیو اسٹار ہوٹل اور جدید سہولیات فراہم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے۔

حکومت بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ اوپن ٹینڈرنگ کے ذریعے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اسلام آباد ایئرپورٹ کو آؤٹ سورس کیا جائے گا جس کی تیاری شروع کر دی گئی ہے اور حکومت کے خاتمے سے قبل ٹینڈر جاری کر دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں اس حوالے سے سٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زِیرصدارت جمعرات کو ہوا جس میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کو حتمی طور پر اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کی اجازت دیتے ہوئے عملی اقدامات کرنے کی ہدایات کی گئی ہیں۔ اجلاس میں شریک حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابتدا میں تین بڑے ایئرپورٹس آؤٹ سورس کرنے کا منصوبہ تھا لیکن کافی غور کرنے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ پہلے ایک ایئرپورٹ کو آؤٹ سورس کیا جائے۔
کچھ عرصے بعد اس عمل سے گزرنے کے دوران اور نئی انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کے نتیجے میں سامنے آنے والے مسائل کو دیکھنے کے بعد اگلے مرحلے میں لاہور اور کراچی کے ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کیا جائے گا۔‘ حکام کے مطابق اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے بعد سکردو کے واحد ایئرپورٹ کو آؤٹ سورس کرنے کا اور بین الاقوامی ایئرلائنز کو براہ راست پروازوں کی اجازت دینے کا پلان ہے تاکہ پورے گلگت بلتستان کے لیے ریونیو وہاں سے حاصل کیا جا سکے۔