آپ اب یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا؟ ناانصافی ہو تو آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں؛ صنم جاوید بریت کیس میں پنجاب حکومت کے وکیل سے مکالمہ
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ کے ججز کی جانب سے صنم جاوید بریت کیس کے خلاف اپیل کرنے والی پنجاب حکومت کے وکیل سے سخت مکالمہ سامنے آیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جہان دوران سماعت وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ’صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی، ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا‘۔
اس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے، آپ اب یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟‘ وکیل پنجاب حکومت نے جواب دیا کہ ’ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا‘، جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں، اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کے ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے‘۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ’اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں‘، وکیل پنجاب حکومت نے مؤقف اپنایا کہ ’ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی‘، اس موقع پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیئے کہ ’کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں‘، وکیل صنم جاوید نے کہا کہ ’ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی‘، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پنجاب حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟‘۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس میں کہا کہ ’کیا پتا کل کو آپ میرا یا کسی کا نام بھی 9 مئی مقدمات میں شامل کردیں، شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے، اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے‘، بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔