26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے پر کاٹے گئے

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سینئیر ججز کی موجودگی کے باوجود باہر سے چیف جسٹس کی تقرری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو قاضی فائز عیسیٰ پارٹ 2 ثابت ہو گا، ہم اس طرح ججز کی تقرری کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، عمران خان

راولپنڈی ( نیوز ڈیسک ) عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سینئیر ججز کی موجودگی کے باوجود باہر سے چیف جسٹس کی تقرری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو قاضی فائز عیسیٰ پارٹ 2 ثابت ہو گا۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں اور وکلاء سے گفتگو کرتے ہوئے بانی تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ “مہذب دنیا میں ہتک عزت کی سزا جرمانے کے طور پر دی جاتی ہے یہ ایک civil liability ہے لیکن پاکستان میں پیکا کا کالا قانون منظور کر کہ ہتک عزت کی سزا 5 سال کر دی گئی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری محکموں کی توہین پر بھی سزا سنائی جا رہی ہے۔ برطانیہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں ہتک عزت کی سزا جرمانے کے طور پر دی جاتی ہے کیونکہ دنیا جمہوری اقدار اور اظہار آزادی رائے کو لے کر آگے کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں ایسے غیر جمہوری قوانین منظور کر کے جمہوری اقدار کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔
آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کا قتل کیا جا رہا ہے۔

اس سب کا مقصد یہی ہے کہ آٹھ فروری کی مینڈیٹ چوری سے لے کر عوام کے چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرنے تک، 9 مئی فالس فلیگ سے 26 نومبر قتل عام تک جو بھی ظلم و بربریت کی گئی اس پر کسی کو آواز اٹھانے کی جرات نہ ہو۔ اس کٹھ پتلی حکومت نے سوائے غیر قانونی ترامیم کے ذریعے عوامی بنیادی حقوق کی توہین کرنے کے کوئی دوسرا کارنامہ نہیں کیا۔ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے پر کاٹے گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سینئیر ججز کی موجودگی کے باوجود باہر سے چیف جسٹس کی تقرری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو قاضی فائز عیسیٰ پارٹ 2 ثابت ہو گا۔ ہم اس طرح ججز کی تقرری کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تقرری بھی میرٹ کی بنیادوں پر ہونی چاہیے ورنہ سکندر سلطان راجہ جیسے گھناونے کردار جنم لیتے ہیں جو عوام کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
سکندر سلطان راجہ آرٹیکل 6 کا مستحق ہے کیونکہ اس نے عوام کا مینڈیٹ دن دیہاڑے چوری کر کے فارم 47 کی حکومت کی سہولتکاری کی۔ آٹھ فروری کو ملک بھر میں یوم سیاہ منایا جائے گا۔ اس دن عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا۔ پہلے انتخابات کو ملتوی کر دیا گیا، نو مئی کا ڈرامہ رچایا گیا تاکہ تحریک انصاف کو کچلا جا سکے اسکے باوجود عوام نے جوق در جوق نکل کر تحریک انصاف کو ووٹ ڈالے مگر نتائج کو بے شرمی اور بے دردی سے بدل کر ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔
اب 8 فروری کے ڈاکے کی پردہ پوشی کے لیے پیکا اور 26ویں ترمیم جیسے قوانین منظور کیے جا رہے ہیں۔ ایک جھوٹ چھپانے کے لیے سو جھوٹوں کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے حکومت مذاکرات کی صورت میں ڈھونگ رچا رہی تھی۔ اس سے ان کے اپنے چہرے عیاں ہوئے ہیں ۔ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ جوڈیشل کمیشن بنے اور نو مئی یا 26 نومبر کی تحقیات ہوں کیونکہ اس سے سچ سامنے آ جائے گا اور یہ اندر سے خوفزدہ ہیں کیونکہ سچ یہی ہے کہ یہ خود ان واقعات میں ملوث ہیں۔
بددیانت کبھی بھی نیوٹرل امپائر کے ساتھ نہیں کھیلتا ۔ ان کے اختیار میں ویسے بھی کچھ نہیں یہ جو بھی کرتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی منشاء سے ہی کرتے ہیں۔ قرآن میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بار بار ذکر آیا ہے کہ اچھائی کا ساتھ دو اور برائی کے خلاف ڈٹ جاؤ۔ جمہوریت کی بنیاد اخلاقیات پر ہی ہے۔ اللہ پاک نے منافق کی نشانی بیان کی ہے کہ وہ برائی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
جو لوگ منافق ہوتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں رسوائی ہے۔ بے غیرتی اور ڈھٹائی کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ لا الہ الا اللہ انسان میں غیرت بیدار کرتا ہے۔ بے غیرت انسان اللہ کے سوا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے ایک قوم صرف غیرت پر کھڑی ہوتی ہے اور ترقی کرتی ہے۔ بے غیرت انسان یا قوم صرف بھیک مانگتی رہ جاتی ہے۔کوئی بھی قوم صرف انصاف اور قانون کی حکمرانی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔
انصاف وہی لوگ دیتے ہیں جن میں اخلاقیات زندہ ہوں ۔ مدینہ کی ریاست انہی اصولوں پر کھڑی ہوئی تھی اور پھر مسلمانوں نے پوری دنیا میں حکومت کی۔ ہمیں بھی اگر اپنی سمت کا درست تعین کرنا ہے تو اخلاقی تربیت پر توجہ دینی ہو گی۔ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہو گا اور انسانی جان کی قدر کرنی ہو گی ورنہ ہمارا مستقبل روشن نہیں ہو سکے گا۔ مدینہ کی ریاست میں ایک یہودی نے خلیفہ وقت حضرت علی رضی الله عنه کے خلاف مقدمہ جیت لیا تھا۔
انصاف کے یہ اصول اسلامی معاشرے کی حقیقی روایات ہیں جنہیں ہم فراموش کر چکے ہیں۔ اسلام اور جمہوریت کے اصولوں کو فراموش کرنے کی وجہ سے ہی ہماری معاشرت اور معیشت دونوں تباہ ہیں اگر ہم حقیقی ازادی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انہی اصولوں کو اپنا کر اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہو گی۔جو انسان بے خوف ہو کر صرف اللہ سے ڈرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے جو خوفزدہ رہتا ہے وہ کبھی کامیاب انسان نہیں بن سکتا۔ جو انسان کبھی ہار نہیں مانتا وہی مراد پاتا ہے لہذا میری قوم نے کبھی ہار نہیں ماننی۔”