مذاکرات ختم ہونے میں قصور وارحکومت ہے، بیرسٹر علی ظفر

مذاکرات کا اس وقت کوئی چانس نہیں انہوں نے پہلے ہم سے تحریری طور پر ڈیمانڈ مانگیں پھر ان کے لیڈران نے پریس کانفرنس کر دی کہ یہ بات ماننے والی نہیں ہے، رہنماء پی ٹی آئی کی میڈیا سے گفتگو

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان تحریک انصا ف کے رہنماء سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ مذاکرات ختم ہونے میں قصوروار حکومت ہے ، مذاکرات کا اس وقت کوئی چانس نہیں، انہوں نے پہلے ہم سے تحریری طور پر ڈیمانڈ مانگیں پھر ان کے لیڈران نے پریس کانفرنس کر دی کہ یہ بات ماننے والی نہیں ہے، پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنماء پی ٹی آئی نے کہا کہ اگر ان کے پاس کوئی حل ہے تو وہ ہمیں تحریری طور پر دیں۔
مذاکرات اس وقت ختم ہیںاور اس کا کوئی چانس بھی نظر نہیں آرہا۔انہوں نے کہا کہ حکومت ہمیشہ اپوزیشن کو اہمیت نہیں دیتی اور اپنی مرضی چلانا چاہتی ہے انہوں نے بل پر کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔ بل کے متعلق ہم سے کوئی مشاورت ہی نہیں کی گئی ۔
حکومت نے بل سے متعلق سٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت نہیں کی۔خیال رہے کہ اس سے قبل سپیکر قومی اسمبلی نے مذاکرات میں پاکستان تحریک انصاف کے نہ آنے پر آج مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس ملتوی کردیا تھاتاہم انہوں نے مذاکراتی کمیٹی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

سپیکر قومی اسمبلی کے آفس میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا مشاورتی اجلاس ہوا تھا جس میں پی ٹی آئی کے آج مذاکراتی سیشن میں شرکت نہ کرنے کے جواب کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا تھا۔بعدازاں سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہم نے آج اجلاس میں45 منٹ تک ان کا انتظار کیا۔ ان کی طرف سے پیغام آیا کہ وہ نہیں آئیں گے۔میں نے پی ٹی آئی سے رابطہ بھی کیا تھا اور انہیں آج کے اجلاس میں شرکت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پی ٹی آئی ارکان نے کہا تھا کہ ہم اپنی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرکے بتائیں گے، ہم اپنا اجلاس کریں گے اس میں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
ایاز صادق کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی غیر موجودگی کی وجہ سے مذاکرات نہیں چل سکتے۔ اس میٹنگ کو آگے رکھنے کا کوئی مقصد نہیں بنتا۔ اس لئے آج کی میٹنگ ملتوی کی گئی تھی لیکن میرے دروازے کھلے ہیں توقع رکھتا ہوں مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ 7 ورکنگ دنوں میں دوبارہ اجلاس ہوگا اس لئے آج 7 دن پورے ہوگئے۔ہم نے اس متعلق سب کو آج کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ ہماری توقع تھی کہ اپوزیشن کے ارکان اجلاس میں آئیں گے۔