گاڑیوں کی خریداری کیلئے اخبارات میں کوئی اشتہار نہیں آیا ، سینیٹر فیصل واوڈا

معاملہ وزیر خزانہ کا تھا، وزیر دفاع بیچ میں آ گئے، لگتا ہے شاٹ فال کے باعث شاید شاباشی کے عوض گاڑیاں دینے کا فیصلہ ہوا، سینیٹر کا ایوان بالا میں اظہار خیال

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سینیٹر فیصل واواڈا نے سینیٹ میں توجہ دلاو نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاٹ فال کے باعث شاید شاباشی کے عوض گاڑیاں دینے کا فیصلہ ہوا، گاڑیوں کی خریداری کیلئے اخبارات میں کوئی اشتہار نہیں آیا، معاملہ وزیر خزانہ کا تھا، وزیر دفاع بیچ میں آ گئے، سینیٹر فیصل واواڈا نے ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر والے کہتے ہیں تین ہزار ارب کا گیپ ہے جس کو یہ پورا کرنا چاہتے ہیں۔
اس موقع پروزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کی گاڑیاں ان کے صرف فیلڈ سٹاف کیلئے لی جارہی ہیں۔ ان گاڑیوں پر لوگو بھی ہوگا اور ٹریکر بھی نصب ہوں گے۔ دنیا بھر میں ایف بی آر کا محکمہ اپنے محاصل کا چار پانچ ارب اپنے محکمے پر لگاتے ہیں۔
ایف بی آر والے کہتے ہیں یہ گاڑیاں اس شرط پر لی جارہی ہیں کہ یہ ٹارگٹ پورا کریں گے۔

ایف بی آر نے یہ گاڑیاں اپنے مختص کردہ بجٹ میں سے لیں گے۔ نئی گاڑیوں کی خریداری کے حوالے سے پالیسی یہ ہے کہ گاڑیاں لوکل مینوفیکچرر سے لی جائیں۔ یہ گاڑیاں گریڈ 17اور 18 کے افسران کیلئے ہوں گی۔سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ وزیرقانون نے بڑا سمارٹلی مدعے کو گاڑیوں کی طرف موڑدیاہے۔ گاڑی ہنڈا ہی کیوں چھوٹی گاڑیاں بھی تو خریدی جا سکتی ہیں۔
میرا مدعا ہے کہ صرف ہنڈا ہی کیوں؟ اس میں سوزوکی 660 سی سی کو کیوں شامل نہیں کیا جارہا ہے۔ یہ کنٹریکٹ غلط طریقے سے ٹیلر میڈ ہوگا، غلط کنٹریکٹ دینے کا مدعا کس پر آئیگا؟۔اس موقع پر سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ اخبارات میں پڑھا کسٹم ہاوس میں سالانہ 3 ہزار ارب کی سمگلنگ ہوتی ہے۔ پاکستان نے ایک سال چلانے کیلئے ساڑھے 8 ہزار ارب قرضہ لینے ہے ہمیں ایف بی آر کی کپیسٹیی کو بڑھانا چاہیے۔ ہمیں چالیس، پچاس ارب ڈینا چاہیں تاکہ یہ ملک کا رینویو بڑھائیں۔ایف بی آر کے ملازمین کو 2 مہینے اور پھر 3 مہینوں کی تنخواہیں اضافی دی گئیں۔ کیا ایف بی آر نے دیا گیا ہدف پورا کردیا ہے۔ کسٹم ہاوس کراچی میں سالانہ 15سو ارب کی کرپشن ہوتی ہے۔