سپیکر قومی اسمبلی نے بل پر صدر کے اعتراضات کی تفصیل جے یو آئی(ف) کو فراہم کر دیں،صدرآصف زرداری نے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین کا حوالہ دیا ہے
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات کی تفصیلات سامنے آ گئیں، سپیکر قومی اسمبلی نے بل پر صدر کے اعتراضات کی تفصیل جے یو آئی(ف) کو فراہم کر دیں، صدر مملکت نے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین کا حوالہ دیا ہے۔صدر مملکت کی جانب سے بل پر لگائے گئے اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاو کا خدشہ ہوگا اور ایک ہی سوسائٹی میں بہت سے مدرسوں کی تعمیر سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہوگا۔
سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراو ہوگا اور ایسے مفادات کے ٹکراو سے عالمی تنقید کا سامنا کرنا بھی پڑے گا جبکہ بل کی منظوری سے ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی ادارے پاکستان کے بارے میں اپنی آراءاور ریٹنگز میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
بل پر اعتراض کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ نئے بل کی مختلف شقوں میں مدرسے کی تعریف میں تضاد موجود ہے اور سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے ابتدائیہ میں مدرسے کا ذکر موجود نہیں ہے اس لئے نئے بل میں مدرسے کی تعلیم کی شمولیت سے 1860 کے ایکٹ کے ابتدائیہ کے ساتھ تضاد پیدا ہوگا۔
صدر آصف علی زرداری نے مدارس رجسٹریشن بل پر یہ اعتراض بھی عائد کیا ہے کہ صدر مملکت نے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ایکٹس کی موجودگی میں نئی قانون سازی ممکن نہیں ہو سکتی۔ سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہے، نئی ترامیم کا اطلاق محض اسلام آباد میں ہونے کے حوالے سے کوئی شق بل میں شامل نہیں۔
مدارس کو بحیثیت سوسائٹی رجسٹر کرانے سے ان کا تعلیم کے علاوہ استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل جے یو آئی (ف)کے سینیٹر کامران مرتضی نے مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل پر صدر مملکت کے اعتراضات عائد کرنے کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا تھا۔ایاز صادق کے نام لکھے گئے خط میں سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی بل پر صدر مملکت کے اعتراضات کی تفصیلات طلب کیں تھیں۔
سپیکر قومی اسمبلی کو لکھے گئے خط میں یہ بھی کہنا تھا کہ سپیکر کی جانب سے ان اعتراضات کو ایڈریس کرنے کیلئے کئے گئے اقدامات سے آگاہ کرنے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس بل کے تحت ہی پارلیمنٹ نے دینی مدارس کی رجسٹریشن کی منظوری دی تھی۔ صدر مملکت آصف زرداری کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کی نقول فراہم کی جائیں۔