فیض حمید اور عمران خان کی پارٹنرشپ 2018ء سے پہلے کی ہے، دونوں کی پارٹنرشپ 9 مئی میں چلی اور بعد میں بھی چلتی رہی؛ وزیر دفاع کی میڈیا سے گفتگو
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی پارٹنرشپ 2018ء سے پہلے کی ہے، عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سرفہرست تھے، یہ پارٹنرشپ 9 مئی میں بھی چلی 9 مئی کے بعد بھی یہ پارٹنرشپ چلتی رہی۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہادتوں سے سامنے آئے گا کہ کس طرح 2018ء میں دھاندلی کی گئی، بانی پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں بہت سے سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا، عمران خان کے ملٹری ٹرائل بارے میں قانون فیصلہ کرے گا۔
خواجہ آصف نے الزام عائد کیا کہ ڈی چوک میں علی امین گنڈاپور کے گارڈز نے خود اپنے ہی افراد کو مارا تھا اور اس کا ملبہ پولیس اور رینجرز پر ڈالا جا رہا ہے، ان افراد کی کارروائیوں کو چھپایا جا رہا ہے اور حقیقت کو مسخ کیا جا رہا ہے، گنڈا پور کی گاڑیوں پر ڈنڈے برسائے گئے تو انہوں نے فائرنگ کی جس کی ویڈیوز ہیں، سب کچھ سامنے ہے، صحافیوں نے جو کوریج کی وہ بھی ثبوت ہے کہ اس دن کیا ہوا، بندے مرے تو کس نے مارے؟ کچھ لوگ 12 افراد کے شہید ہونے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ ان 5 افراد کی شہادت کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو رینجرز اور پولیس کے افسران تھے اور جو دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوئے، یہ شہید بھی پاکستان کے شہری ہیں اور ان کے خون کی قیمت کو نہیں بھولنا چاہیئے۔
ان کا کہنا ہے کہ کہ جب قانون حرکت میں آتا ہے تو اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے اور جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، تمام ریاستی ادارے اور افسران قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں، پاکستان کی سلامتی کے لئے رینجرز، پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کی قربانیاں قابل تعریف ہیں، ملک میں امن و امان کے قیام میں ان کا کردار بے حد اہم ہے۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ عمران خان کے دور میں کئی افراد کے ملٹری ٹرائل ہوئے تھے جنہیں اب مختلف وجوہات کی بنا پر نظر انداز کیا جا رہا ہے، اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ جو کچھ بھی قانونی طریقے سے ہوا اس کا جواز تھا لیکن اگر کوئی فرد قانون سے باہر جا کر کام کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ضروری ہے، حکومت کا مقصد ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے اور اس میں کوئی شخص یا ادارہ استثنیٰ نہیں ہے، قانون کی بالادستی کے لئے ہر فرد اور ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ملک میں امن قائم رہے اور ہر فرد کو انصاف مل سکے۔