سپریم کورٹ آئینی بینچ کا الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے متعلق پارلیمنٹ جانے کا مشورہ

حامد خان آپ سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں اس معاملے کو اٹھائیں؛ دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے متعلق پارلیمنٹ جانے کا مشورہ دیتے ہوئے متفرق درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ’عدالتی فیصلے کی روشنی میں 2018ء کے ضمنی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کیا گیا، پارلیمنٹ میں رپورٹ بھی جمع کرادی گئی ہے، اب اس معاملے کو پارلیمنٹ نے دیکھنا ہے‘۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ’حامد خان آپ سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں اس معاملے کو اٹھائیں، سپریم کورٹ کی طرف دیکھنے کے بجائے پارلیمنٹ جائیں، کیس ختم ہو چکا ہے تو پھر متفرق درخواست پر سماعت کیسے چلتی رہی؟ آج ہم درستگی کرنا چاہتے ہیں‘، ان ریمارکس کے ساتھ ہی آئینی بینچ نے متفرق درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
علاوہ ازیں آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے 8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کی، دوران سماعت عمران خان کے وکیل حامد خان نے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔ وکیل حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ ’نوٹس موصول نہیں ہوا جس کے باعث کیس کی تیاری نہیں کرسکا، موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد کیس مقرر کیا جائے‘، جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو نوٹس بھیجا ہوا ہے، اپنے اے او آر سے رابطے میں رہا کریں‘، بعدازاں آئینی بینچ نے عمران خان کی عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف درخواست پر سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔
بتایا گیا ہے کہ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے پی ٹی آئی رہنما شیرافضل مروت کی عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف درخواست پر بھی سماعت کی، پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کی جانب سے وکیل ریاض حنیف راہی پیش ہوئے۔ شیر افضل مروت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’ان کی درخواست پر سپریم کورٹ رجسڑار آفس نے اعتراضات عائد کیے تھے مگر رجسڑار آفس کی جانب سے اعتراضات بارے ہمیں بتایا نہیں گیا، ہم اعتراضات پر جواب بھی تیار نہیں کرسکے‘، بعدازاں عدالت عظمیٰ نے اعتراضات فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت جنوری تک ملتوی کردی۔