مڈل ٹیمپل کے باہر پی ٹی آئی کے حملے کے الزام میں کی گئی شکایت پر کسی کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ، کراون پراسیکیوشن سروس نے پولیس کی طرف سے تیارکردہ کیس کو عدالت لے جانے سے معذرت
لندن ( نیوز ڈیسک ) لندن پولیس نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر حملے کی تفتیش ختم کر دی، لندن پولیس نے پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کمیشن کی سفارتی گاڑی پر مڈل ٹیمپل کے باہر پی ٹی آئی کے حملے کے الزام میں کی گئی شکایت پر کسی کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ ،میڈیارپورٹس کے مطابق کراون پراسیکیوشن سروس نے پولیس کی طرف سے تیارکردہ کیس کو عدالت لے جانے سے معذرت کر لی۔
لندن پولیس کے مطابق قاضی فائز عیسٰی مقدمے میں مدعی نہیں بنے تھے، تفتیش ختم ہونے کے باوجود پولیس نے واقعہ میں ملوث افراد کو واچ لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک پولیس ذرائع نے بتایا کہ یہ واقعہ کسی کے خلاف الزامات عائد کرنے کیلئے ضروری شواہد کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اس لئے شکایت بند کر دی گئی ہے۔
سٹی آف لندن پولیس نے واقعہ میں نامزد 28 پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف ناکافی ثبوت پائے۔
خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو مڈل ٹیمپل کا بینچر بنانے کی تقریب کے موقع پر پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے احتجاج کیا گیاتھا۔پی ٹی آئی رہنماﺅں ملیکہ بخاری، ذلفی بخاری،اظہرمشوانی و دیگر نے مظاہرین سے خطاب کیا تھا۔بتایاگیاتھا کہ تقریب سے باہر نکلتے ہوئے پی ٹی آئی کارکنوں نے ان کی گاڑی پر حملہ کیا اور مکے برساتے رہے۔
بعدازاں سابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سفارتی گاڑی پر مڈل ٹیمپل پر حملے کے بعد پاکستانی ہائی کمیشن نے پولیس کو شکایت درج کرائی تھی۔پاکستانی دفتر خارجہ نے ہائی کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ واقعے کی ویڈیو کا جائزہ لے کر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔پاکستان ہائی کمیشن نے واقعہ کے حوالے سے تمام دستیاب شواہد پولیس کو فراہم کئے تھے مگر پولیس نے کہا کہ واقعے میں کسی کے زخمی نہ ہونے اور کوئی دوسرا نقصان نہیں ہوا لہذا کسی بھی شخص پر فرد جرم عائد نہیں ہو سکتی۔
ایک نوٹ وربیل فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) کو بھیجا گیا جس میں سفارتی پولیس کی مدد طلب کی گئی تھی۔ اس کی کاپی دفتر خارجہ کے ساتھ ساتھ برطانوی ہائی کمیشن کو بھی بھیج دی گئی تھی۔ چند روز قبل تقریباً چار پولیس افسران مزید سوالات پوچھنے کیلئے ہائی کمیشن گئے جہاں انہیں مکمل بریفنگ دی گئی تھی۔ پاکستانی حکومت نے اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث 23 افراد کے پاسپورٹ منسوخ کرکے ان کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیئے تھے۔