میری گرفتاری کے ذمہ دار شہباز شریف،مریم نواز،آ ئی جی پنجاب اور ڈی پی او اٹک ہیں،عمر ایوب

مجھے کل اڈیالہ جیل چوکی میں غیر قانونی حراست میں رکھا گیا، میرے پاس پشاور ہائی کورٹ کی حفاظتی ضمانت موجود ہے، رہنماء پی ٹی آئی کی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو

راولپنڈی ( نیوز ڈیسک ) پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء عمر ایوب کا کہنا ہے کہ میری گرفتاری کے ذمہ دار شہباز شریف،مریم نواز،آ ئی جی پنجاب اور ڈی پی او اٹک ہیں، مجھے کل اڈیالہ جیل چوکی میں غیر قانونی حراست میں رکھا گیا، میرے پاس پشاور ہائی کورٹ کی حفاظتی ضمانت موجود ہے،راولپنڈی میں عدالت کی جانب سے ضمانت منظور ہونے اور رہائی کا حکم ملنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنماءپی ٹی آئی نے کہا کہ آج عدالت نے پولیس سے پوچھا ہائیکورٹ سے ضمانت ہو تو آپ کے پاس کیا اختیار ہے گرفتاری کا۔
پولیس کے پاس عدالت کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ مجھے کل جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیاجس پر عدالت نے میری ضمانت منظور کی ہے، اڈیالہ جیل سے رات کو پولیس لائنز منتقل کیا گیا۔
پولیس لائنز میں بھی غیر قانونی حراست میں رکھا گیا۔یاد رہے کہ اس سے قبل انسداد دہشتگردی عدالت راولپنڈی نے گزشتہ رات اڈیالہ جیل سے گرفتار کئے گئے تحریک انصاف کے عمر ایوب اور راجہ بشارت سمیت پانچ رہنماوں کو رہا کرنے کا حکم دیاتھا۔

عدالت نے ان گرفتاریوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پولیس کے پانچ افسران کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا تھااور پولیس افسران کی سخت سرزنش بھی کی کہ عبوری ضمانتیں ہونے کے باوجود انہیں کیوں گرفتار کیاتھا۔پی ٹی آئی رہنماوں عمرایوب ، راجہ بشارت اور احمد چٹھہ کو راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ اے ٹی سی کے جج امجد علی شاہ نے مقدمات پر سماعت کی، پی ٹی آئی کی جانب سے بابر اعوان سمیت دیگر وکلاءعدالت پیش ہوئے تھے۔
دوران سماعت عدالت نے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب و دیگر پی ٹی آئی رہنماوں کی گرفتاری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس میں کہاتھا کہ پشاور ہائیکورٹ سے ضمانت ہونے کے باوجود کیوں گرفتار کیاتھا۔بعدازاں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پی ٹی آئی رہنماوں کی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے صدر بیرونی سرکل نبیل کھوکھر، ایس ایچ او صدر بیرونی اعزاز عظیم ثاقب طیب سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا تھا۔عدالت نے اڈیالہ جیل میں سماعت کے موقع پر آئندہ 500 یارڈ کی جیل کی حدود کے اندر کسی ملزم کو گرفتار نہ کرنے کے احکامات بھی جاری کر دئیے تھے۔