چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ کی جانب سے جاری کردہ 3 علیحدہ مگر ایک جیسے حکم ناموں میں اقدام کو آئین کی دفعہ 218(3) اور 10اے جبکہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 3،4 اور 151 کے تحت درست قرار دیا ہے
اسلا م آباد ( نیوز ڈیسک ) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو ہٹا کر جسٹس ریٹائرڈ عبدالشکور پراچہ کو الیکشن ٹریبونل اسلام آباد کا سربراہ مقرر کردیا،چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ کی جانب سے جاری کردہ 3 علیحدہ مگر ایک جیسے حکم ناموں میں اقدام کو آئین کی دفعہ 218(3) اور 10اے جبکہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 3،4 اور 151 کے تحت درست قرار دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے تینوں ارکان قومی اسمبلی کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیا جس میں انہوں نے اپنے خلاف دائر کردہ انتخابی عذر داریاں دوسرے ٹریبونل منتقل کرنے کی استدعا کی تھی۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل الیکشن ٹریبونل اسلام آباد کا سابقہ نوٹیفکیشن واپس لیا جاتا ہے، دفتر کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اس کے مطابق کارروائی کرے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل الیکشن ٹریبونل اسلام آباد کا سابقہ نوٹیفکیشن واپس لیا جاتا ہے۔ دفتر کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اس کے مطابق کارروائی کرے۔الیکشن کمیشن کے ایک حکم نامے میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قانونی کارروائی کا تصور اس خیال پر منحصر ہے کہ قانونی کارروائی طے شدہ قواعد کے مطابق کی جائے، مدعی کے حقوق کا فیصلہ کرنے کے لیے قانونی دفعات اور طے شدہ اصولوں کا اظہار کریں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں آرٹیکل 10 اے کی شمولیت کے بعد منصفانہ ٹرائل اور مناسب طریقہ کار بنیادی حقوق میں شمار ہوتا ہے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے کمیشن کے حکم کو مسترد کرنے کے لیے کسی اور بنیاد کا ذکر نہیں کیا، موجودہ معاملے میں جو قانونی چارہ جوئی کا دوسرا دور ہے، کمیشن نے فریقین کو اضافی بنیاد، تحریری جوابات، ترمیم شدہ جوابات اور وسیع دلائل داخل کرکے اپنے موقف کا دفاع کرنے کا کافی موقع فراہم کیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے یہ بھی کہا کہ تبادلے کا اختیار نگرانی اور انتظامی نوعیت کا ہے اور ہر متعلقہ شخص کو موقع فراہم کرنے کے بعد اس کا استعمال کیا جانا چاہیے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں آرٹیکل 10 اے کی شمولیت کے بعد منصفانہ ٹرائل اور مناسب طریقہ کار بنیادی حقوق میں شمار ہوتا ہے۔