ضمانت کے باوجود بشریٰ بی بی کی رہائی میں نئی رکاوٹ

رہائی کی روبکار جاری کرنے کیلئے خصوصی عدالت کے ججز آج دستیاب نہیں

راولپنڈی ( نیوز ڈیسک ) سابق وزیراعظم و بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی رہائی میں نئی رکاوٹ سامنے آگئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابقہ خاتون اول بشریٰ بی بی کی رہائی کی روبکار جاری کرنے کے لیے خصوصی عدالت کے ججز آج دستیاب نہیں، عدالتی وقت ختم ہونے کے باعث ڈیوٹی جج بھی عدالت سے روانہ ہوگئے، سپیشل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور ذاتی مصروفیت کے باعث چھٹیوں پر ہیں جب کہ دوسری خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین جنازہ میں شرکت کے لیے گئے ہوئے ہیں، تاہم آخری اطلاعات موصول ہونے تک بشریٰ بی بی کی قانونی ٹیم کی جانب سے روبکار جاری کروانے کے لیے کوششیں جاری تھیں۔
واضح رہے کہ اسلا م آبادہائیکورٹ نے توشہ خان 2کیس میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے ان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے درخواست ضمانت منظورکی،عدالت کا 10،10لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا ۔
بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت کی سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، سماعت کے آغاز پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر عمیر مجید عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے دلائل کا آغاز کیا، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل دیئے کہ ’ریاست کو ملنے والا گفٹ جمع کرانا اور ڈیکلیئر کرنا ہوتا ہے، یہ گفٹ ریاست کی ملکیت ہوتا ہے جب تک اسے قانونی طریقے سے خرید نہ لیا جائے، ریاست کے ملکیتی تحفے کو خریدنے سے قبل اپنے پاس نہیں رکھا جا سکتا‘۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ’بشریٰ بی بی نے تحائف جمع نہیں کرائے تو بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ملزم کیوں بنایا گیا؟‘ ایف آئی اے پراسیکیوٹر عمیر مجید نے جواب دیا ’ کیوں کہ پبلک آفس ہولڈر بانی پی ٹی آئی تھے‘، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ’یہ تو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی طرح کا کیس ہے، اس کیس میں بھی شوہر کو بیوی کے کیے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا، برطانوی وزیراعظم بھی تحائف اپنے ساتھ گھر لے گیا ، سب نے اسے کہا تو کہتا ہے کہ رولز کے مطابق لیا ہے، اسے کہا گیا کہ رولز اپنی جگہ لیکن تمہارا ایک قد کاٹھ بھی ہے، اگر اب یہ بلغاری سیٹ واپس کر دیں تو کیا ہو گا؟‘۔
پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’نیب قانون میں تو پلی بارگین ہے لیکن اس قانون میں ایسی کوئی شق نہیں ہے‘، جسٹس گل حسن اورنگزیب نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ’ جب سے کیس منتقل ہوا آپ نے کوئی تفتیش کی؟‘،ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ’ نہیں مجھے ضرورت نہیں پڑی‘، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ’بہت شکریہ!‘، بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کر لی اور انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔