’ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ دئیے اور زہر نکال دیا‘ فضل الرحمان کا آئینی ترمیم پر تبصرہ

اتفاق رائے ملکی سطح پر ہو رہا ہے، جو بل مسترد کیا وہ بل اب نہیں رہا، اگر چھوٹا موٹا تحفظ رہا گیا ہے تو اپنی ترامیم دیں گے، ابھی مفاہمت کا وقت ہے؛ سربراہ جے یو آئی ف کی پریس کانفرنس

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ دیئے ہیں اور زہر نکال دیا ہے۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پر پی ٹی آئی نے بھی اتفاق کیا ہے، متن پر کوئی جھگڑا نہیں رہا ہے لیکن پی ٹی آئی کے حالات ایسے ہیں کل انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی اور جو ہمیں بتایا، ان پر تشدد ہوا، کارکن گرفتار ہوئے، اگر ووٹنگ میں حصہ نہیں لے رہے تو میں بھی تسلیم کرتا ہوں کہ یہ ان کا حق بنتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ آئینی ترامیم پر کوئی بنیادی اعتراض نہیں، 18 ویں ترمیم کے وقت بھی حکومت اور اپوزیشن مل کر بیٹھی تھی کیوں کہ آئین قوم کا ہوتا ہے، اس لیے ہم نے مل کر محنت کی ہے لیکن ایک پارٹی کی اپنی ایک مخصوص پوزیشن ہوتی ہے اس لیے جبر نہیں کرسکتے، اگر بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے تو پی ٹی آئی حق پر ہے، یہ جائز احتجاج کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اتفاق رائے ملکی سطح پر ہو رہا ہے، جو بل مسترد کیا تھا وہ بل اب نہیں رہا،اگر چھوٹا موٹا تحفظ رہا گیا ہے تو اپنی ترامیم دیں گے، اب بھی مفاہمت کا وقت ہے کیوں کہ ابھی بل پیش نہیں ہوا، ہم آئینی پیکج پر متفق ہیں، ہم نے شخصیات کو نہیں دیکھنا، ججز کی سنیارٹی اپنی جگہ کارکردگی بھی اہم چیز ہے، اگر دو تین ججز کا پینل بنا کر چناؤ کیا جائے تو صحت مند روایت کا آغاز ہو جائے گا۔
اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم اس سارے پروسیس میں مولانا فضل الرحمان کے کردار پر ان کے شکر گزار ہیں، آئین میں ترمیم ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، پاکستان تحریک انصاف واضح کرچکی ہے کہ ہمارے چیئرمین عمران خان ہیں، ہم ہر فیصلہ بانی پی ٹی آئی کے مشورے اور ان کی رضامندی کے ساتھ کرتے ہیں، بانی پی ٹی آئی نے جو کل ہدایت جاری کی تھیں کہ ہم مزید مشاورت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک اصولی مؤقف لے چکی ہے، ہمارے ایم این ایز اور سینیٹرز کو ہراساں کیا گیا ہے، مولانا فضل الرحمان سے آج طویل نشست رہی ہے، اس بل پر پی ٹی آئی ووٹ نہیں دے سکتی، ہم اس سارے حصہ میں شرکت نہیں کریں گے، ہم ترمیمی بل میں ووٹ نہیں دیں گے، آج پارلیمنٹ میں تقریر کریں گے لیکن اس ترمیم کو ووٹ نہیں دیں گے۔