عدلیہ کو بالکل غیرسیاسی ہونا چاہئے، مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت چلنے کے حق میں بات ہے، عدالتی اصلاحات کا مسئلہ اکتوبر میں نہیں اٹھایا یہ میرے منشور میں شامل ہے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اس بار حکومت معطل کرنے کا عدالتی حکم بھی آیا تو پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے رہیں گے، عدلیہ کو بالکل غیرسیاسی ہونا چاہئے۔مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت چلنے کے حق میں بات ہے، عدالتی اصلاحات کا مسئلہ اکتوبر میں نہیں اٹھایا یہ میرے منشور میں شامل ہے۔
انہوں نے نجی نیوز چینل کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی قوانین پرعملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے آج یہ ماحول پیدا ہوا، فلسطین ایشو ایسی مثال ہے جیسے ہمارے ہاں کشمیر کا مسئلہ ہے،فلسطین کا مسئلہ ہرپاکستانی کی آواز ہے، مسئلہ فلسطین میں امن کے حوالے سے خطرہ بڑھتا جارہا ہے،موجودہ صورتحال میں سمجھتا کہ جنگ بندی ہونی چاہیے، ایران کی اپنی خارجہ پالیسی ہے جس کے تحت وہ اقدامات اٹھاتے ہیں، پاکستان کی کوشش ہونی چاہے کہ خطے میں امن قائم ہو۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ سیاسی استحکام ہر مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جب ہم جمہوریت آئین قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، جب ہم سی اوڈی کی بات کرتے تھے، ایم آرڈی، اے آرڈی ، جدوجہد کرتے تھے، مقصد کیا تھا؟ ہم کیوں کہتے ہیں جمہوریت اور آئین قانون کی بالادستی ہونی چاہیئے سب کو اپنے دائرے میں کام کرنا چاہیئے۔ سیاسی استحکام سیاسی قوتیں ہی لاتی ہیں ، سیاسی استحکام تب ہوگا جب ہم مذاکرات کے ساتھ کوئی بنیادی رولز طے کریں۔
پی ٹی آئی کے فیصلے کرنے والوں کی سوچ ہے کہ ملک کو نہیں چلنے دینا، وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی اور عدالتی نظام ناکام ہو، اس کا عام آدمی پر منفی اثر ہوگا، پی ٹی آئی اس منفی اثر کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی اگر بڑی پارلیمانی جماعت سمجھتی ہے تو شہبازشریف نے حکومت بنانے کی دعوت دی تھی، جب معیشت کی بات ہوتی ہے تو وزیراعظم اور صدر مملکت نے باربار پی ٹی آئی کوسی اوڈی کی دعوت دی کہ معیشت ، مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کو مل کر حل کرتے ہیں وہاں بھی پی ٹی آئی نے مثبت کردار ادا نہیں کیا۔
بلکہ ہر آئی ایم ایف ڈیل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ اس سے عمران خان نے جاتے جاتے آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی کا معیشت پر بم پھینکا تھا۔شہبازشریف کا عمران خان کی مہنگائی کے سونامی کو سنگل ڈیجٹ پر لانا مثبت اقدام ہے، الیکشن کی شفافیت کا سوال 2024سے 2008تک بلکہ اس بھی پہلے جب بی بی پہلی بار وزیراعظم بنیں تب بھی احتجاجا حکومت سنبھالی تھی۔
مجھ پر ذمہ داری ہے پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کروں۔پی ٹی آئی کے پاس خیبرپختونخواہ حکومت ہے ان کی ذمہ داری وہاں کے مسائل حل کریں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی خواہش ہے کہ آئینی ترامیم پر پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لیا جائے، بانی پی ٹی آئی کا ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت لائیں، فکر نہ کریں معافی کا اختیار اس وقت ہمارے پاس ہے،25اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم کرنے میں مشکلات ہوں گی، مخصوص نشستوں کا فیصلہ یہی اشارہ کرتا ہے، 25اکتوبر سے پہلے ترامیم ہوئیں تو 19ترمیم جیسی مشکلات نہیں ہوں گی، موجودہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کو تسلیم کیا ہے۔
آئینی ترامیم کسی شخص کے حق میں یا کسی کے خلاف نہیں کررہا، یہ ترامیم ادارے کیلئے ہوں گی کیونکہ ادارے نے ہمیشہ قائم رہنا ہوتا ہے۔بانی پی ٹی آئی اگر نہیں چاہتے کہ جیل جائیں تو آئیں سی اوڈی کا حصہ بنیں، لیکن عمران خان سی اوڈی کو مک مکا سمجھتا تھا، عمران خان کو جمہوریت یا نظام کی بہتری میں کوئی دلچسپی نہیں، عمران خان چاہتے واپس آئیں تو ملک کو ایسے ہی چلائیں، یہ چاہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ ہمیں دوبارہ اقتدار میں لے کر آئے، انہیں نیوٹرل اسٹیبلشمنٹ قبول نہیں، بانی پی ٹی آئی کی سیاست ہی غیرجمہوری ہے، ہمیں اپنی سیاست کو سیاسی انداز میں لے کر چلنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ سیاستدان جیسے بھی ہوں الیکشن میں عوام کو جواب دینا پڑتا ہے، عدلیہ کو بالکل غیرسیاسی ہونا چاہئے۔مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت چلنے کے حق میں بات ہے، عدالتی اصلاحات کا مسئلہ اکتوبر میں نہیں اٹھایا یہ میرے منشور میں شامل ہے، ملٹری کورٹس میرے منشور میں نہیں، حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں، حکومت چاہتی ہے کہ مولانا فضل الرحمان بھی ایک پیج پر آجائیں، حکومت کر گھر بھیجنے کا عدالتی حکم بھی آیا تو پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔