میری جدوجہد جسٹس فائزکیلئے نہیں، اپوزیشن کہتی جسٹس فائز کو سربراہ نہ لگائیں، فیصلہ کرنے والامیں کون ہوتا ہوں؟ عدالتی جنگ سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئینی عدالت میں جسٹس فائز ہوں یا جسٹس منصورہمیں کوئی مسئلہ نہیں، میری جدوجہد جسٹس فائز کیلئے نہیں، عدالتی جنگ سے بھی میرا کوئی لینا دینا نہیں، اپوزیشن کہتی جسٹس فائز کو سربراہ نہ لگائیں، کون سربراہ بنے گا کون نہیں ، میں فیصلہ کرنے والا کون ہوتا ہوں؟ بلوچستان ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کو گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے، ہماری نسلوں نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں۔
میرے خاندان کا سفر کٹھ پتلی سے شروع نہیں ہوتا، آمر کے بنائے گئے کالے قوانین کا خاتمہ ضروری ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، اٴْس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل کیانی، اٴْس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل پاشا کے درمیان مک مکا ہوا تھا کہ اگر آئین اپنی اصل صورت میں بحال ہوا تو ان کا جمہوریت پر کنٹرول کیا ہوگا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ اس وقت یہ سوچا جارہا تھا کہ سیاست دانوں کو سیاست سے الگ رکھنا ہے تو کسی نہ کسی بہانے پر انہیں 62، 63 پر نااہل کر دیں اور پوری آزاد عدلیہ نے ہمارے جمہوری سفر میں 30 سال کی جدوجہد، 18 ویں ترمیم اور 1973 کی بحالی کے بعد ایسی مثالیں قائم کیں جو ناقابل بیان ہیں۔
میں مانتا ہوں کہ آج بہت برے حالات ہیں، لیکن حالات اس وقت بھی بہت برے تھے جب ایک ایسا فرعون بیٹھا تھا جس کے خلاف آپ کچھ بول ہی نہیں سکتے تھے، آپ مجھے بتائیں کہ توہین عدالت کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کسی جج کے خلاف بولیں تو آپ کو زندگی بھر کیلئے سزا ملے گی، کیا یہ اظہار خیال کی آزادی ہی کہ آپ کوئی فیصلہ دیں،آپ کسی وزیراعظم کو نکالیں،آپ 18ویں ترمیم کو 19ویں ترمیم میں تبدیل کریں اور ہم چوں تک نہ کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے،اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، آپ نے پوچھا کہ 18ویں ترمیم کے وقت میں نے یہ کیوں نہیں کیا،میں کرنا چاہ رہا تھا، آپ جیسے معزز وکلا تو کہہ رہے تھے کہ زندہ ہے وکلا،چیف تیرے جاں نثار نے شمار بے شمار،آزادی ریاست ہوگی ماں کی طرح ریاست بن گیا باپ کی طرح اور اس میں بہت بڑا ہاتھ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا ہے۔
چیئرمیں پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ اداراہ پارلیمان پر مسلسل حملہ آور رہا ہے، آپ نے آزادی کے نام پر اس کو مزید طاقت دلوائی ہے۔انہوں نے کہا 63 (ای) کا آئین ہم نے لکھا ہے تو سب سے زیادہ مجھے پتا ہے کہ 63 (ای) کا مطلب کیا ہے، میں نے یہ غلطی کی کہ میں نے اس شخص کو اس ملک کا وزیراعظم بننے دیا، کیا یہ مذاق ہے کہ پاکستان میں اگر آپ کے پاس یونیفارم اور بندوق ہے تو آپ کی مرضی ہوگی، عدالت نے اجازت دی مشرف کو کہ سو بسم اللہ کہ اگر آپ نے آئین میں ترمیم کرنی ہے تو کرلیں، یہ آپ کی عدالت کی تاریخ ہے۔
ہمیں مکمل انصاف کا تصور بھٹو شہید کے ریفرنس کے بعد یاد آیا، آئینی ترمیم سے متعلق میں موجودہ چیف جسٹس کیلئے جدوجہد نہیں کر رہے، مجھے معلوم ہے کہ ملک میں انصاف ملنا کتنا بہت مشکل ہے، میرا نہیں آپ کا ایجنڈا کسی خاص شخصیت کیلئے ہوسکتا ہے، مجھے کوئی مسئلہ نہیں عمر عطا بندیال اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میں سے کوئی بھی آکر آئینی عدالتوں میں بیٹھے، مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والا اس بات پر اعتراض کرے گا کہ ہمیں ایک ایسی آئینی عدالت ملنی چاہئے جس میں چاروں صوبوں کو برابر نمائندگی ملے۔
عدالتی اصلاحات کے منصوبے کو خراب کیا گیا، اگر میں 25 اکتوبر کے بعد انتظار کروں تو کیا 63 اے جیسا فیصلہ نہیں آئے گا کیا ایسا نہیں کہا جائے گا کہ آئین کو آپ کو تو آپ نہیں ترمیم کرسکتے صرف ہمارے پاس اس کا اختیار ہے، آپ کیا یقین دلائیں گے کہ وہ ایک بار پھر یہ دھمکی نہیں دیں گے کہ پوری کی پوری 18 ویں ترمیم اڑا کر رکھ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں عدالتی نظام اسی طرح رہیگا تو پھر ہم نہیں مانیں گے، ہمارے پاس پاکستان میں کبھی ایسی عدالت نہیں رہی جس نے کبھی پارلیمان یا کسی سیاستدان کو اجازت دی کہ ان کے بارے میں کوئی آئین سازی اور قانون سازی ہوسکے۔
ہمارا مطالبہ صرف آئینی عدالت کے قیام کا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عدالتی اصلاحات اور ججز کے تقرری کے طریقہ کار کو درست کرنے کا بھی ہے، ہر چیف جسٹس کی ابتدائی تقریر کی ویڈیو اور ٹیکسٹ نکال کر پڑھ لیں وہ سارے کہتے ہیں کہ ہم اپنے قوانین میں تبدیلی کریں گے اور آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ میرٹ کے فیصلوں کا ذرا حال دیکھ لیں، سندھ ہائی کورٹ کی 13 اور لاہور ہائی کورٹ میں تقریباًً 24 آسامیاں خالی ہیں تاہم معزز ججز صاحبان آپس میں بات نہیں کرتے، اتنے سارے کیسز ہیں اور ہر چند مہینے بعد کوئی سیاسی مسئلہ اٹھ جاتا ہے جہاں پوری وکلاء اور عدالت کا دھیان ان کی طرف چلا جاتا ہے۔
آئینی عدالت سے نہ صرف عام آدمی کو جلدی اور فوری انصاف ملے گا بلکہ اس میں موجود ججز کی تمام توجہ آئینی معاملات کو دیکھنے پر مرکوز ہوگی اور اگر یہ نہیں کر پائے تو پھر بار ایسوسی ایشن میں موجود لوگ ان کا احتساب کریں گے۔