الیکشن کمیشن 8 فروری کے انتخابات میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا، سپریم کورٹ

الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عمل میں نمایاں غلطیوں کے باعث عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔ مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے، الیکشن کمیشن کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے لیکن الیکشن کمیشن 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا، الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عمل میں نمایاں غلطیوں کے باعث عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، 70 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلے کو اردوزبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی ہے کہ اردو ترجمہ کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کریں۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی، عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، آئین و قانون کسی شہری کو انتخاب لڑنے سے نہیں روکتا، عوام کی خواہش اور جمہوریت کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہے، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ اپنانے کا اختیار دیتا ہے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کیلئے اہم ہے، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پرپی ٹی آئی کے امیدواروں کونوٹیفائی کرے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن میں بڑا سٹیک عوام کا ہوتا ہے، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، سیاسی جماعت کو انتخابی نشان نہ دینا سیاسی جماعت کے الیکشن لڑنے کے حق کو متاثر نہیں کرتا، آئین سیاسی جماعت کو الیکشن میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا، ہم 8 ججز ریٹرننگ افسران اور الیکشن کمیشن کے غیر قانونی اقدامات پر ایک دوسرے سے متفق تھے، پی ٹی آئی اور اس کے امیدواران نے ان کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھایا، خاص طور پر پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں پر نقصان پہنچا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی متفق تھے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران کے غیر قانونی اقدامات سے شدید نقصان پہنچا۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ انتخابی تنازعہ بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔