اگرعدالتوں سے عام آدمی کو انصاف چاہیے تو پھر آئینی عدالتیں قائم کرنا پڑیں گی

آئینی عدالتوں کا مینڈیٹ آئینی معاملات کی تشریح کرنا ہوگا، عدالتی نظام درست کرنے کیلئے آئینی عدالتیں ضروری ہیں، افتخار چودھری نے جو بنیاد ڈالی اسے ثاقب نثار اور گلزار احمد نے آگے بڑھایا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہےکہ اگرعدالتوں سے عام آدمی کو انصاف چاہیے تو پھر آئینی عدالتیں قائم کرنا پڑیں گی، آئینی عدالتوں کا مینڈیٹ آئینی معاملات کی تشریح کرنا ہوگا، عدالتی نظام درست کرنے کیلئے آئینی عدالتیں ضروری ہیں، افتخار چودھری نے جو بنیاد ڈالی اسے ثاقب نثار اور گلزار احمد نے آگے بڑھایا۔
انہوں نے پیپلز لائرز فورم کے وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک سابق وزیر اعظم کو پچاس سال بعد انصاف ملے، تو سوچیں پاکستان کے عام شہریوں کو بھی کیا انصاف کیلئے پچاس پچاس سال انتظار کرنا پڑے گا؟ کیا ہم صرف اپنے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دیکھتے رہیں یا پھر ہم اپنا فرض ادا کریں، ہمیں چاہیئے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا وعدہ کو پورا کرتے ہوئے میثاق جمہوریت کے مطابق آئینی عدالتیں قائم کریں، ججوں تنعیاتی کے عمل کو درست کریں اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے عوام کو انصاف دلوائیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے زیادہ عدلیہ کی عزت اور احترام کوئی اور نہیں کرتا، باقی صرف اس کو استعمال کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہماری مسلسل کوشش رہی ہے کہ عدلیہ کی بہتری کیلئے کام کریں۔ پیپلز لائرز فورم کے وکلاء نے اس ملک کو آئین دیا، ہر آمر اور وقت کے فرعونوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر جمہوری جدوجہد میں صف اول کا کردار ادا کیا۔ نیوزایجنسی کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پیپلزلائرز فورم کے صوبائی صدور کا اجلاس ہوا۔
پیپلزلائرز فورم کے مرکزی صدر نیر بخاری، رکن قومی اسمبلی نوید قمر اور سیاسی مشیر جمیل سومرو موجودتھے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پیپلزلائرز فورم کے صوبائی صدور کو مجوزہ آئینی ترمیم پر اب تک ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزلائرز فورم کے صوبائی صدور کے درمیان مجوزہ آئینی ترمیم سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی میثاق جمہوریت اور اپنے منشور کے تحت مجوزہ ترمیم میں آئینی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہے،پی پی پی نے مجوزہ آئینی ترمیم میں ججوں کی عمر کے معاملے پر کوئی بات نہیں کی جبکہ حکومت ججوں کی عمر سے متعلق تبدیلیاں چاہتی تھی۔انہوںنے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ججوں کی ملازمت کی ابتدا کی عمر کی حد کم کرنے کی حمایت کی جس پر حکومت نے اتفاق کیا اور اسے مسودے میں شامل کیا، حکومت نے چیف جسٹس کی زیادہ سے زیادہ عمر 3 سال کے ساتھ 67 سال کرنے کی تجویز دی تھی، جمعیت علمائے اسلام نے ججوں کی موجودہ عمر کی حد 65 سال برقرار رکھنے کی تجویز دی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ججوں کی عمر کے معاملے سے آئینی ترمیم میں چھیڑچھاڑ سے لگے گا کہ ہم کسی خاص فرد کو عہدے سے باہر یا اندر رکھنا چاہتے ہیں جو نامناسب ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ جسٹس منصور علی شاہ اگلے چیف جسٹس ہوں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس منصورعلی شاہ اس بینچ کا حصہ تھے جس نے شہید ذوالفقارعلی بھٹو قتل کیس کا تاریخی فیصلہ سنایا، چیف جسٹس قاضی فائزعیسی اور جسٹس منصور علی شاہ کے لئے میرے دل میں بہت عزت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کے حوالے سے اصولی موقف رکھتی ہے اور ان کی حمایت نہیں کرتی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر حکومت واقعی فوجی عدالتوں کے حوالے سے قانون سازی ضروری سمجھتی ہے تو ہمارا مطالبہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ قومی سلامتی اجلاس بلایا جائے۔ آرٹیکل 63-A کے فیصلے نے ارکان پارلیمنٹ کو اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا ہے، اراکین پارلیمان اگر پارٹی پالیسی کے خلاف اپنا ووٹ دیں گے تو وہ نہ صرف اپنی رکنیت کھو دیں گے بلکہ ان کا ووٹ بھی نہیں گنا جائے گا، پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ اراکین پارلیمان کو پہلے کی طرح نہ صرف مرضی کے مطابق ووٹ دینے کا حق ہونا چاہئے بلکہ ان کا ووٹ شمار بھی ہونا چاہئے، آئینی ترامیم کا زیرگردش مبینہ مسودہ اصل نہیں ہے۔