ملک میں انٹرنیٹ کی خرابی اکتوبر کے اوائل تک ٹھیک ہونے کی نوید سنادی گئی

ان دنوں جاری انٹرنیٹ کی سست روی کی بنیادی وجہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر جوڑنے والی سات بین الاقوامی سب میرین کیبلز میں سے دو میں خرابی ہے۔ پی ٹی اے حکام

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) ملک میں انٹرنیٹ کی خرابی اکتوبر کے اوائل تک ٹھیک ہونے کا امکان ظاہر کردیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ 2 سب میرین کیبلز میں خرابی کو قرار دیا ہے، پی ٹی اے حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں جاری انٹرنیٹ کی سست روی کی بنیادی وجہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر جوڑنے والی سات بین الاقوامی سب میرین کیبلز میں سے دو کیبلز SMW4 اور AAE1 میں خرابی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ایس ایم ڈبلیو فور سب میرین کیبل میں خرابی اکتوبر 2024ء کے اوائل تک ٹھیک ہونے کا امکان ہے جبکہ سب میرین کیبل اے اے ای ون کی مرمت کر دی گئی ہے اور سب میرین کیبل اے اے ای ون کی مرمت سے انٹرنیٹ کی موجودہ صورتحال میں بہتری آئے گی۔
بتایا جارہا ہے کہ پاکستان میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا صارفین کو اپنے آن لائن کاموں میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے، ای کامرس سے لے کر برقی رابطوں تک ہر جگہ شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں، پاکستان میں انسانی حقوق کی کمیشن نے بھی انٹرنیٹ کی روانی میں مسلسل رکاوٹوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے لوگوں کا معلومات کا حق، اور آزادی اظہار کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کا حق بھی متاثر ہو رہا ہے، رابطے کا حق کوئی رعایت نہیں بلکہ ایک بنیادی حق ہے اس لئے حکومت کو سستے اور قابل اعتماد انٹرنیٹ تک عوام کی رسائی کو یقینی بنانا چاہیے، انٹرنیٹ میں رکاوٹوں اور اس کی اسپیڈ کی آہستگی کا معاملہ اب اخباری سرخیوں سے نکل کر لاہور ، اسلام آباد اور پشاور سمیت ملک کی متعدد عدالتوں میں جا پہنچا ہے اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ڈیجیٹل صارفین کے حقوق کا تحفظ عدالتیں ہی کر سکتی ہیں۔

جب کہ صحافی حامد میر کی طرف سے انٹڑنیٹ کی سست رفتار کے حوالے سے دائر کی جانے والی ایک درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے وکیل سے سلو انٹرنیٹ کے بارے میں ہوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ’ منسٹری نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی ہے‘، دوسری طرف جب پی ٹی اے کے وکیل سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے‘، عدالت نے اس پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور میں بھی ایسی درخواست زیر سماعت ہے لیکن نہ کوئی وہاں ذمہ داری قبول کر رہا ہے اور ہی یہاں کر رہا ہے‘۔
پاکستان میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے سوشل میڈیا صارفین کو کنٹرول کرنے کے لیے جو فائر وال لگانے کا منصوبہ شروع کیا تھا اگر اس میں وہ تمام سٹیک ہولڈرز سے مشورہ کر لیتی، عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے لیتی تو اسے زیادہ تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑتا، حکومت کی طرف سے چھپ چھپا کر لیے جانے والے کام شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں، اس سے مسائل حل ہونے کی بجائے الجھ جاتے ہیں، ابھی تک صارفین کو یہ تک نہیں بتایا جا رہا کہ فائر وال کا معاملہ کہاں پہنچا ہے، اس میں کیا رکاوٹیں ہیں اور یہ سلسلہ کب تک چلے گا، تاہم پی ٹی اے کے ایک اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’انٹرنیٹ کے معاملے کو درست ہونے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے اور نئے نظام کی تنصیب کی کئی ڈیڈ لائنز گ‍‍زر چکی ہیں‘۔