آئین کو تبدیل کر دیں بنیادی حقوق اس میں سے نکال دیں،میرے ایک ساتھی جج نے ایک کیس میں سخت آرڈرکیا تو آج کی حکومت کی پروپیگنڈا مشینوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے سماعت کے دوران ریمارکس
اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کے لاپتہ کارکن فیضان کی بازیابی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دئیے ہیں کہ گرفتاری ڈال دیں ہم کچھ نہیں کہیں گے لیکن ملک اس طرح نہ چلائیں، آئین کو تبدیل کر دیں بنیادی حقوق اس میں سے نکال دیں،میرے ایک ساتھی جج نے ایک کیس میں سخت آرڈرکیا تو آج کی حکومت کی پروپیگنڈا مشینوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ فیضان کون ہیں؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ فیضان کا تعلق پی ٹی آئی میڈیا سیل سے ہے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمے میں سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آئین کو تبدیل کر دیں۔
بنیادی حقوق اس میں سے نکال دیں۔ ہمارا دائرہ اختیار ختم کر دیں اور ملک کو اسی طرح چلائیں۔ مجھے نہیں معلوم اسٹیٹ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ آپ اس کی گرفتاری ڈال دیں ہم کچھ نہیں کہیں گے مگر ملک کو اس طرح نا چلائیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے ریمارکس دیے کہ وزارت دفاع ، وزارت داخلہ اور اسٹیٹ سب اس سے خوش ہیں، مجھے سمجھ نہیں آرہی یہ کیا ہورہا ہے اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، پہلے جس بینچ میں کیس تھا انہوں نے لکھا یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے۔
یہ ظالمانہ ایکٹ ہے اس صورت حال میں آئینی عدالتوں کو کیا کرنا چاہیئے؟ دنیا بھی دیکھ رہی ہے پاکستانی عدالتیں ان کیسز میں کیا کررہی ہیں یا پھریہ کہیں دنیا یہاں آئے سرمایہ کاری کرے، لوگ مسنگ بھی ہوں گے اور عدالتیں بھی کچھ نہیں کرسکیں گے، وفاقی حکومت کا مطلب وزیراعظم اور وفاقی کابینہ ہے اور ذمہ داری آخر کار ایگزیکٹو ہیڈ پر آتی ہے۔سرکاری وکیل نے کہا کہ درخواستگزاروں نے صاف ہاتھوں کے ساتھ عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا، عدالت نے کہا کہ انہوں نے صاف ہاتھوں سے درخواست دائر نہیں کی، اس لیے درخواست خارج کر دیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ میں خدمت گزار جج بن جاو¿ں؟ یہ گندے درخواست گزار ہیں تو ہم ان درخواست مسترد کر دیتے ہیں، سمجھ نہیں پا رہا کہ آپ ہمیں کس طرف لے کر جا رہے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ہی مجھےبتا دیں کہ کیا کرنا چاہیے؟ حکومت اگر اسے جبری گمشدگی کا کیس کہتی ہے تو دیکھے کس کے کہنے پر ہوا یہ؟جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ یہ معاملہ انا کا ایشو کیوں بنایا گیا ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پنجاب پولیس نے اس حوالے سے تحقیقات کیلئے پوری کوشش کی، عدالت اگر اٹارنی جنرل کو ہدایت دے تو وہ وزیراعظم سے بات کرسکتے ہیں ٹاسک فورس بنائی جائے۔
جن جن وزارتوں کے ماتحت ہے،ان کی رپورٹس کے مطابق ہم چلتے ہیں۔پہلے جس بینچ میں کیس تھا انہوں نے لکھا ہے یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے، حکومت کو اس معاملے پر اغواکاروں کے ساتھ بیٹھنے کی ضرورت ہے۔اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہا کہ یہ تو ہمیں نہیں پتا کہ اغوا کار کون ہیں؟جج نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے ایک ساتھی جج نے سخت آرڈر کیا تو حکومتی پروپیگنڈا مشینوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا، میں اس کیس میں آرڈر پاس کروں گا۔بعازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔