اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کے آزادانہ کردار پر سوالات اٹھا دیئے

کیا نیب نے توشہ خانہ کے دیگر تحائف پر بھی کسی کے خلاف انکوائری کی ہے؟ عدالت کو مطمئن کریں کہ نیب اپوزیشن کو دبانے کیلئے استعمال نہیں ہو رہا۔ نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے آزادانہ کردار پر کئی سوالات اٹھا دیئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی نئے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری غیرقانونی قرار دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی جہاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 2 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ’نیب کا کال اپ نوٹس Vague ہے، نیب کا نوٹس جاری کرنے کا یہ طریقہ کار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نیب کے اس طرح کے کئی کال اپ نوٹسز کالعدم قرار دے چکی ہے، کیا آپ نیب کے کال اپ نوٹسز کا دفاع کریں گے؟ اگر نیب کی انکوائری بلغارین سیٹ سے متعلق ہے تو وہ نوٹس میں لکھ دیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان کو 13 جولائی کی میجک ڈیٹ کو گرفتار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ نیب گرفتار نہ کرتا تو وہ جیل سے باہر آ جاتے، نیب کا پہلا کال اپ نوٹس تو درست نہیں، دوسرا ہمیں دکھا دیں، آپ نیب کے مبہم کال اپ نوٹس پر گرفتار کا جواز کیسے پیش کریں گے؟ یہ عدالت آج ہی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دے سکتی ہے، عدالت کو مطمئن کریں کہ نیب اپوزیشن کو دبانے کیلئے استعمال نہیں ہو رہا‘۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا نیب نے توشہ خانہ کے دیگر تحائف پر بھی کسی کے خلاف انکوائری کی ہے؟ کیا کابینہ ڈویژن کی فہرست کے مطابق کسی ایک شخص نے بھی تحفہ توشہ خانہ میں جمع کرایا ہے؟ نیب نے اپنی نیک نیتی ثابت کرنی ہے کہ وہ استعمال نہیں ہو رہے، نیب نے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ آزادانہ کارروائی کر رہے ہیں، نیب نے دیگر زیادہ مہنگے تحائف پر اپنی آنکھیں بند کیسے کیں؟ نیب نے صرف یہ کیس کیسے پِک کر لیا ہے؟‘۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ’نیب نے یہ ریفرنس دائر کیوں نہیں کیا، تاخیر کیوں کی جا رہی ہے؟ نیب واضح کہہ دے کہ انہوں نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی گرفتاری کو پروٹیکٹ کرنا ہے، سیکرٹری کابینہ توشہ خانہ کا کسٹوڈین ہوتا ہے، اگر کوئی تحائف جمع نہیں کراتا تو سیکرٹری کابینہ نے اقدامات کرنے ہیں، نیب نے سیکرٹری کابینہ کو مرکزی ملزم کیوں نہیں بنایا؟ اگر کوئی تحائف لے کر جاتا ہے تو وہ مرکزی ملزم تو بن ہی نہیں سکتا، کیا نیب نے سیکرٹری کابینہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں؟‘۔
نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ’نیب نے گرافٹ جیولری کے ایک تحفے کی بنیاد پر پہلا ریفرنس بنایا، دوسرا ریفرنس بلغاری سیٹ کے تحفے کی بنیاد پر بنایا گیا‘، جس پر جسٹس بابر ستار نے دریافت کیا کہ ’چیئرمین نیب دیگر 56 تحائف کو الگ سے کیس کیلئے بھی رکھ سکتے ہیں؟‘، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’جی! قانون میں اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں ہے‘۔