عدلیہ میں ثاقب نثار کے سائے رہنے تک ملک میں عدم استحکام موجود رہے گا

جس سے معاشی استحکام کبھی نہیں آئے گا، جب بھی استحکام آنے لگتا ہے توپھر ایسا فیصلہ آتا ہے کہ ہر چیز عدم استحکام کا شکار ہوجاتی ہے،ابھی تک 9مئی ح کرنے والوں کو سزا نہیں دی گئی۔ مرکزی رہنماء ن لیگ طلال چودھری

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء طلال چودھری نے کہا ہے کہ عدلیہ میں ثاقب نثار کے سائے رہنے تک عدم استحکام موجود رہے گا، جس سے معاشی استحکام کبھی نہیں آئے گا، جب بھی استحکام آنے لگتا ہے توپھر ایسا فیصلہ آتا ہے کہ ہر چیز عدم استحکام کا شکار ہوجاتی ہے،ابھی تک 9مئی ح کرنے والوں کو سزا نہیں دی گئی۔
انہوں نے نجی نیوز چینل میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں چھٹیاں ہوتی ہیں لیکن پھر بھی سپریم کورٹ اپنا کام جاری رکھتی ہے، اس کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل نے کرنا ہے،یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ادھر ایڈہاک ججز کے نام آئیں اور ان کے خلاف مہم شروع ہوجائے۔ اکتوبر میں ظاہر ہے کہ نئے چیف جسٹس آئیں گے اسی لئے پی ٹی آئی کررہی ہے، ہماری حکومت نے بنچ بنانے اور اپیل کے طریقے پر ترمیم کی، پی ٹی آئی نے اس کی مخالفت کی۔
ثاقب نثار اور بعد کے چیف جسٹس نے جس طرح کے فیصلے کئے اور بنچز بنائے اس کا غریب کے چولہے تک اثر پڑا ہے۔ ثاقب نثار اور پچھلے چیف جسٹس بنچ بھی نہیں بدلتا تھا فل کورٹ بنانا تو دور کی بات ہے۔
ملک میں دن دیہاڑے کیمروں کے سامنے 9مئی حملے ہوئے، جو لوگ ملوث ہیں ان کو سزا دینی چاہیے، سائفر لہرایا، فارن فنڈنگ ہے لیکن کوئی سز انہیں، ہم چاہتے ہیں ترازو کو برابر پکڑیں ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے، عدلیہ میں جب تک ثاقب نثار کے سائے رہیں گے سیاسی عدم استحکام موجود رہے گا، جس سے معاشی استحکام کبھی نہیں آئے گا، جس دن استحکام آنے لگتا ہے پھر ایسا فیصلہ آتا ہے کہ اسٹاک ایکسچینج سے لے رہر چیز عدم استحکام کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس موقع پرپاکستان تحریک انصاف کے رہنماء شعیب شاہین نے کہا کہ ایڈہاک ججز کی تعیناتی زیرالتواء کیسز نہیں ہے، ہم ایڈہاک ازم کے خلاف رہے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں کبھی اکٹھے جج نہیں لگایا گیا، مقصد ججز میں تقسیم پیدا کرنا ہے، جسٹس مقبول باقر کا سب کو پتا ہے کہ کراچی میں کیا نہیں ہوا، ان کے نگران حکومت کے دور میں ؟ ان کا مقصد ہے کہ اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگاتے ہیں، ویسے ان میں پابندی لگانے کی جرات یا ہمت نہیں ہے، یہ ویسے ہی کٹھ پتلی ہیں، یہ چاہتے ہیں ہم اپنی مرضی کے چار ججز لے آئیں اور مرضی کے فیصلے لے سکیں، پھرعدالت کے ذریعے دوتہائی مل جائے اور قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن دی جائے۔

رکن پاکستان بار کونسل ہارون الرشید نے کہا کہ سپریم کورٹ میں زیرالتواء کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے، یہ تعداد چھ ہزار سے زائد کراس کرگئی ہے۔ جوڈیشری کا زیادہ عوام کے لئے ہونا چاہیئے۔ ایڈہاک ججز پہلے بھی تعینات ہوتے رہے ہیں، اب اگر سیاسی ہے تو ٹھیک نہیں اگرزیرالتواء کیسز کو ختم کرنے کیلئے ہے تو پھر ٹھیک ہے۔