سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

فیصلہ کب سنایا جائے گا اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے طویل سماعت کے بعد نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’تمام فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا جاتا ہے، فیصلہ سنانے سے متعلق آپس میں مشاورت کریں گے، فیصلہ کب سنایا جائے گا اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، دیکھیں گے کہ اس وقت مختصر فیصلہ ممکن ہے یا نہیں‘، تاہم بعد ازاں عدالتی عملے نے بتایا کہ ’سپریم کورٹ مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا مختصر فیصلہ بھی آج نہیں سنائے گی، مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ سنانے کی تاریخ بعد میں بتائی جائے گی‘۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ بینچ کے مقدمے کی سماعت کی، آج کی سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ’مختصر رہتے ہوئے 15 منٹ میں جواب الجواب مکمل کروں گا، آرٹیکل 218 کے تحت دیکھنا ہے کیا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری شفاف طریقہ سے ادا کی یا نہیں؟ ثابت کروں گا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری مکمل نہیں کی، مؤقف اپنا گیا سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کروائی جب کہ 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن تین مخصوص نشستیں ملیں، الیکشن کمیشن نے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق بے ایمانی پر مبنی جواب جمع کروایا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے سامنے معاملہ سپریم کورٹ سے پہلے بھی لے کر جایا گیا، الیکشن کمیشن اپنے ہی دستاویزات کی نفی کررہا ہے، کیا یہ بے ایمانی نہیں؟‘ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’بھول جائیں الیکشن کمیشن نے کیا کہا، کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے مطابق تھا؟‘، وکیل نے جواب دیا کہ ’الیکشن کمیشن کا فیصلہ بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق قانون پر مبنی تھا‘۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن کا بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق مخصوص نشستوں کا فیصلہ چیلنج کیا؟‘، وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ ’الیکشن کمیشن کہہ دیتا کہ غلطی ہوگئی، الیکشن کمیشن نے ایسا رویہ اختیار کیا جیسے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق فیصلے کا وجود ہی نہیں‘، اس پر جسٹس عرفان سعادت نے پوچھا کہ ’کیا بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبرپختونخوا انتخابات میں حصہ لیا؟‘، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے بتایا کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبرپختونخوا انتخابات میں حصہ لیا لیکن سیٹ نہیں جیتی‘۔
جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے کہ ’آپ کا کیس مختلف ہے، سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، ابھی دلائل دیں لیکن بعد میں تفصیلی جواب دیں‘، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’باپ پارٹی نام عجیب سا ہے‘، جسٹس جمال مندوخیل کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’اگر کوئی پارٹی باقی صوبوں میں سیٹ لے اور ایک صوبے میں نہ لے تو کیا ہوگا؟‘، وکیل نے جواب دیا کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی نے دیگر صوبوں میں سیٹ جیتی لیکن خیبرپختونخوا میں کوئی سیٹ نہیں لی، الیکشن کمیشن کا غیر شفاف رویہ ہے‘۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ جوڈیشل نوٹس لے؟ اگر نہیں تو ذکر کیوں کررہے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے حوالے سے کیس لیں تو لے لیتے ہیں لیکن سپریم کورٹ 2018ء انتخابات پر انحصار نہیں کرے گی‘، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’اگر الیکشن کمیشن امتیازی سلوک کررہا تو سپریم کورٹ دیکھے‘، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ’یعنی 2018 میں الیکشن کمیشن ٹھیک تھا؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی تشریح کی پابند ہے؟ آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا، کیا 2018 کے انتخابات درست تھے؟‘۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’عدالت کہہ رہی تھی مداخلت کیوں کریں، میں وہ وجہ بتا رہا ہوں، عدالت الیکشن کمیشن کے غیر منصفانہ اقدامات کو مدنظر رکھے، جمعیت علامائے اسلام ف کے آئیں میں اقلیتوں کی شمولیت پر پابندی ہے، جے یو آئی ف کو اقلیتی نشست بھی الاٹ کی گئی ہے‘، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا جے یو آئی ف کو اقلیتی نشست نہیں ملنی چاہیے؟‘، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ’کامران مرتضیٰ اس پر وضاحت دے چکے ہیں کہ مس پرنٹ ہوا تھا‘، اس پر وکیل سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی نے کہا کہ کامران مرتضیٰ کی وضاحت ہوا میں ہے، جے یو آئی ف نے اس کی ویب سائٹ سے آئین ڈاؤن لوڈ کیا ہے‘۔
چیف جسٹس نے وکیل سے دریافت کیا کہ ’کیا سنی اتحاد کونسل میں صرف سنی شامل ہوسکتے ہیں؟‘، وکیل نے جواب دیا کہ ’سنی اتحاد کونسل میں تمام مسلمان شامل ہوسکتے ہیں‘، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’کیا باقیوں کو آپ مسلمان سمجھتے ہیں؟‘، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’اس اعتبار سے سنی اتحاد کونسل کو کوئی نشست نہیں ملنی چاہیے، سنی اتحاد کی کوئی جنرل سیٹ نہیں تو آپ کے دلائل کے مطابق مخصوص نشست کیسے مل سکتی ہیں؟‘، اس پر وکیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں غیر متناسب نمائندگی کے اصول کے مطابق نہیں دی جا سکتیں، جنہیں آزاد کہا جا رہا ہے وہ آزاد نہیں ہیں‘۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ’آپ اپنے خلاف ہی دلائل دے رہے ہیں‘، وکیل نے جواب دیا کہ ’میں آپ کو قائل نہیں کر سکا یہ الگ بات ہے لیکن ہمارا کیس یہی ہے جو دلائل دے رہا ہوں‘، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ’کیا آپ کے دلائل مان کر نشستیں پی ٹی آئی کو دے سکتے ہیں؟‘، وکیل نے بتایا کہ ’سنی اتحاد کونسل پارلیمان میں موجود ہے، نشستیں اسے ملیں گی‘، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ووٹ اور ووٹرز کے حق پر کوئی دلائل نہیں دے رہا، الیکشن کمیشن اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کے لیے ڈیٹا نہیں دے رہا کہ انتخابات شفاف ہوئے، ایک سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر کیا گیا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’آرٹیکل 51 سیاسی جماعتوں کے حقوق یقینی بناتا ہے، سال 2018ء کے انتخابات پر بھی سوالات ہیں، کیا وہی کچھ دوبارہ کرنے دیں کیوں کہ 2018 میں بھی سوالات الیکشن کمیشن پر اٹھے تھے؟‘، وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ ’سنی اتحاد کونسل کے لوگ آزاد نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا ہے‘، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ’مخصوص نشستوں کی تقسیم کے وقت شاید سنی اتحاد والے آزاد تھے‘، وکیل نے بتایا کہ ’مخصوص نشستوں کے وقت بھی آزاد امیدوار سنی اتحاد کا حصہ بن چکے تھے، الیکشن کمیشن کے اپنے ریکارڈ سے یہ بات ثابت شدہ ہے‘۔
فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن اسی وقت کہہ دیتا آپ سنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہو سکتے، الیکشن کمیشن کا مسلسل ایک ہی مؤقف رہتا تو بات سمجھ آتی‘، اس پر جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے کہ ’فیصل صدیقی آپ کی جماعت کو تو بونس مل گیا، آپ کی جماعت نے الیکشن نہیں لڑا اور اسے 90 نشستیں مل گئیں‘، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ’کیا الیکشن نارمل حالات میں اور شفاف ہوئے تھے؟ ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے امیدوار دوسری جماعت میں کیوں بھیجنے پڑے؟‘۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’دیکھنا ہے کہ آزاد امیدواروں نے کیسے پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی؟ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کو آزاد امیدواروں کی شمولیت کے حوالے سے بتانا ہوگا، آزاد امیدوار کی بھی مرضی شامل ہونی چاہیئے، الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت کا ممبر ہے تو اسی سیاسی جماعت کا نشان اسے ملنا چاہیے، کسی سیاسی جماعت کو چھوڑے بغیر نئی جماعت میں شمولیت نہیں ہوسکتی‘، اس کے ساتھ ہی سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب الجواب مکمل کرلیے۔
اس کے بعد تحریک انصاف کی خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ’میں عدالت کے سامنے 10 منٹ میں بہت مختصر دلائل رکھنا چاہتا ہوں، 2018ء انتخابات میں مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کروائی لیکن مخصوص نشستیں بلوچستان عوامی پارٹی کو دی گئیں، اس بار آزادامیدواروں نے تین روز کے اندر سنی اتحادکونسل میں شمولیت اختیار کی اور سنی اتحادکونسل پارلیمانی پارٹی بنی‘، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ’13 جنوری کا ڈیکلریشن آپ نے تحریک انصاف نظریاتی کا ظاہر کیا‘، سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ واپس بھی لے لیا گیا تھا، ثابت کرنا چاہ رہا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے اپنا ہی ریکارڈ دبانے کی کوشش کی، اس لیے الیکشن کمیشن نے مکمل دستاویزات جمع نہیں کروائے‘۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ ’کیس بہت اہم ہے، سنجیدہ سوالات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری پر اٹھے ہیں، پارلیمنٹ کی بات ہو رہی تو ووٹ کے حق کی بات ہورہی، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا، کیا ایسے عمل کو سپریم کورٹ کو نہیں دیکھنا چاہیے؟، یہ ایک جماعت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ قوم کا مسئلہ ہے، ہمیں آئین قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا‘، جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے دریافت کیا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں جو تحریک انصاف کے ہوتے ہوئے سنی اتحادکونسل میں گئے وہ ٹھیک گئے‘، سلمان اکرم راجہ نے اس کا جواب دیا کہ ’اگر آزاد امیدوار ڈیکلیئر کیا ہے تو سنی اتحادکونسل میں شامل ہوسکتے تھے، سنی اتحادکونسل کے علاوہ کسی پارٹی میں شامل کونے کی کوئی آپشن نہیں تھی، اس سے پہلے جو ہوا وہ الیکشن کمیشن کی غلطی تھی‘۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’سوچ کر جواب دیں کیا پی ٹی آئی کو یہ نشستیں واپس نہیں چاہییں؟‘، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’اگر عدالت آئینی تشریح سے ایسے نتیجے پر پہنچے تو مجھے انکار نہیں، آرٹیکل 51 میں کہاں لکھا ہے کہ مخصوص نشستیں لینے کے لیے ایک سیٹ جیتنا ضروری ہے‘، جسٹس عرفان سعادت نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کیا کہ ’کیا آپ کی دلیل وکیل فیصل صدیقی کے کیس کو نقصان نہیں پہنچا رہی؟، جس پر وکیل نے کہا کہ ’میں اپنے دلائل مکمل اور شفاف دوں گا‘، بعد ازاں وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل مکمل کیے تو سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔